غبار زندگی (ازقلم: تہنیت آفرین ملک، منڈی بہاوالدین)

"لو بھلا ایسی باتیں کب چھپتی ہیں میں تو چپ یہ دیکھ"

غبار زندگی (ازقلم: تہنیت آفرین ملک، منڈی بہاوالدین)

جب میں سات سال کا تھا تب میرے کانوں میں پہلی دفعہ ایک لفظ سنائی دیا۔ "خواجہ سرا” میری دیہاتی سادہ ماں نے قدرے غصے سے میرے بھائی کی سمت دیکھا اور کہا.

"اللہ لوک ہے میرا پتر بند کر اپنا منہ” اس نے تو منہ بند کر لیا میں نہ کر پایا۔

میرا باپ سخت گیر چوہدری کا مزارع تھا۔ باہر کا زور گھر میں نکالتا۔ میری ماں سادہ گھریلو عورت تھی۔ جس کے آٹھ بچوں میں سے ایک بچہ خواجہ سرا نکلا۔

ماں نے بہت کہا دائی سے "دیکھ خدا کا واسطہ ہے تجھے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھ رحم کر کسی کو مت بتانا” دائی جھکی کمر لئے مسکرائی

"لو بھلا ایسی باتیں کب چھپتی ہیں میں تو چپ یہ دیکھ”

شیطانی مسکراہٹ سجاتی لاٹھی عادتاً زور سے زمین پر مارتی وہ ہر لمحہ دور جا رہی تھی۔ ماں جانتی تھی کہ یہ لاٹھی صبح تک ہر دروازہ پار کر چکی ہو گی۔

سرخ اتنا سرخ کہ باقی رنگ بھول جائے۔ اکلوتے بیٹے کو کسی کی مہندی پر اندھی گولی لگ جائے یا ماں کی آغوش سے کوئی بیٹی لے جائے اور اتنا مارے کہ مر جائے۔ اس خون جتنا سرخ رنگ کا لبادہ اوڑھے وہ رک سا گیا اور پھر بولنے لگا۔

"میری ماں نے جتنا چاہا مجھے چھپا لے پر نہ چھپا سکی. ماسی برکتے کے ہاں پوتا ہوا تو خواجہ سرا کا گروہ آیا.
مجھے دیکھا تو ایک خسرہ تالی پیٹتے ہوئے بولا۔
"اری او لکشمن یہ دیکھ یہ تو اپنا بچہ ہے دیکھ اپنے جمی جیسا”
اب جمی کون تھا؟ خدا جانے لیکن مجھے ان ہاتھوں سے سخت وحشت ہوئی”

"ائےے ہاتھ چھوڑ میرے نوید کا۔۔۔”ماں غصے سے تھرائی.
نوید یا نویدہ خسرے گول جھومر میرے سامنے ڈالنے لگے۔
میں نے خود کو دیوانہ وار بھاگتا پایا۔
فیس پاوڈر کی تہہ اس کے آنسوؤں میں بہنے لگی۔ وہ مزید پاوڈر کانپتے ہاتھوں سے چپکانے لگا۔
پھر اک دن ماں مر گئی میں بھی مر گیا۔ لیکن مجھے قبر میں اتارنا سب بھول گئے۔

باہر گانوں کا شور کان پھاڑ رہا تھا لیکن وہ بولے جا رہا تھا۔
ماں مجھے مردانہ لباس پہناتی تھی کہتی تھی.
"سن، میرے نوید لڑکی ہونا خود اپنی ذات میں بڑا مشکل ہے۔ ہر تئیں خود کو جھکانا پڑتا ہے، دل مارنا پڑتا ہے۔ روح تو ناجانے کب مر جاتی پتہ ہی نہیں چلتا۔ تو بھی سمجھ تو لڑکا ہے”

لیکن زمانے نے مجھے لڑکی بنا دیا۔ تیز سرخ لپ اسٹک ڈھونڈتی وہ ہلکان ہونے لگی آنکھوں کے سامنے ناجانے کیوں دھند چھا رہی تھی۔
باپ نے شہر بھیج دیا یا بیچ دیا علم نہیں۔لیکن ماچس فیکڑی کا مالک میرے باپ کے جانے کے بعد بند دروازہ کی اوٹ میں میرے قریب آیا۔
"ہاں تو نوید تو یہاں کام کرے گا؟ میری کمر پر اپنے ہاتھ جماتا وہ جھکا۔ میری روح تک کانپ گئی۔ پھر میرے ساتھ کیا ہوا؟ مجھے دو دن ہوش نہ آیا۔ جب ہوش آیا تو پتہ چلا کہ "خارش زدہ سور ہوس کے مارے مرد سے لاکھ درجے بہتر ہے اور یہ بھی کہ زندگی ایک تلخ تجربہ ہے دل میں پیوست تکلیفوں کا گھر” الجھے بالوں کو سلجھانے کی کوشش بے سود ہی تھی۔ کپکپاتے ہاتھ ہر کام کرنے سے عاجز ہو رہے تھے۔

پھر میں ڈرنے لگا۔ مکمل انسانوں سے جو صرف اعضاء پورے رکھتے تھے احساس نہیں۔ شہر بھر کی غلیظ نظریں میرے جسم میں چھید کرتی تھیں۔ پھر مجھے بابا جی ملے میری نئی ماں انہوں نے مجھے بتایا کہ "مکمل لوگوں کی دنیا میں ادھورے لوگ ہر دن اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑتے ہیں اور ہار جاتے ہیں۔”

انہوں نے مجھے بتایا کہ "جنگل میں ہزاروں جانور ہیں۔ اور زمین کے جنگل میں صرف انسان۔ کیونکہ انسان ہزاروں روپ رکھتا ہے۔ تم دیکھو ایک انسان ہی تو ہے جو ہر روپ میں ملتا اچھا، برا۔
معاف کرنا سیکھو سب کو سکھی رہو گی”

بابا جی نیک حاجی تھے لیکن ان کےگھر والے مجھے کیونکر گھر رکھ سکتے تھے؟ میں خود وہ ٹھکانہ چھوڑ آئی۔ لوگ ہم سے گھن کھاتے ہیں۔ دیکھ کر چہرہ موڑ لیتے ہیں۔ آشنائی نہ ظاہر ہو، رخ موڑے رکھتے ہیں۔ کیا خدا ہم سے کبھی ہم کلام ہو گا؟

شاید کبھی نہیں خدا ہم سے کیونکر کلام کرنا پسند کرے گا۔
"پھر کیا ہوا۔۔۔”سامع بے چین ہوا
"پہنچی وہاں ہی جہاں کا خمیر تھی” وہ تلخی سے ہنسی
"میں وہاں ہی آن پہنچی زخمی ٹوٹا بدن لے کر۔۔
ہم جیسوں کے دکھ ہم ہی جانتے ہیں۔گرو نے مجھے سنبھال لیا۔”
"مجھے سب سکھایا جو وہ جانتا تھا”
وہ مکمل تیار ہو چکی تھی آئینہ اس کا عکس ہر زاویے سے دیکھا رہا تھا۔
دفعتا وہ ٹھہری
"پھر تم یہاں کیسے پہنچی؟”
وہ بے چین ہوا
"یہاں” وہ ٹھہر گئی
"یہاں بس پہنچ ہی گئی”
"پھر تم ابھی رو کیوں رہی تھی؟”

"میں ناچ رہی تھی وہ گھٹیا دولہے کا بوڑھا باپ کبھی میرے یہاں ہاتھ لگاتا تھا کبھی وہاں” وہ زمین پر بیٹھ کر رونے لگی اونچا اونچا
"میں گر گئی تھی میری کمر جو دکھ رہی تھی وہ زخمی ہو گئی میں نے دعا کی کہ میں مر جاو لیکن میں نہیں مری اس لیے رو رہی تھی”
"اری شبنم تیری لپائی ختم نہیں ہوئی اٹھ چل اب تیری باری ہے۔۔”
اس کی ساتھی خواجہ سرا کمرے میں آئی تو میرا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔
"آ رہی ہوں باہر زرا دھیرج رکھ.
اٹھلاتی ہوئی وہ باہر کو لپکی”

"پھر شبنم کا کیا بنا؟ میں نہیں جانتا لیکن یہ جان گیا زندگی ہر انسان کے لئے سرخ پھول لے کر نہیں آتی جہنم کا سامان دنیا میں لے آتی ہے۔
شبنم سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ وہ شاید مجھے بھول بھی جاتی۔” لیکن ادھوری کہانی مجھے ہمیشہ بے چین رکھتی میں لکھاری ہوں جانتا ہوں ادھورے ہونے کا دکھ۔۔۔”

ایک ایسی ہی سرد سی شام تھی جب میں تخیل کے گھوڑے پر سوار تھا تو چند الفاظ لکھتے شبنم مجھے شدت سے یادآئی
آخر کہاں ہو گی وہ؟
” چند حروف کے مجموعہ لفظ
یہ مجھے خوشی دیتے ہیں
اور ایک مصنف کو زندگی
میں وہ ہوں جو
ایک خوبصورت نظم
جو تم میرے لیے لکھوں
میں ناراضگی بھلا سکتی ہوں”
تب لفظوں نے مجھے تھام لیا۔
جب شاعر نے کہا
"ہر کجا رفتم غبارِ زندگی درپیش بود”
"جس راہ بھی چلتا ہوں زندگی کا غبار آڑے آتا ہے ۔۔”

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.