قدرت کا انصاف (افسانہ، تحریر : عائشہ بٹ لاہور)

علیحہ کسی گہری سوچ میں گُم تھی اور نور مسلسل بولے جارہی تھی-

علیحہ علیحہ ! تمہیں معلوم ہے ڈرائنگ روم میں انکل سرمد آئے ہوئے ہیں، اور وہ ابو سے تمہارا پوچھ رہے تھے – مجھے تو لگتا ہے وہ حمزہ کے لیے تمہارا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں۔

علیحہ کسی گہری سوچ میں گُم تھی اور نور مسلسل بولے جارہی تھی- نور نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی-
شام کے وقت کھانے کی ٹیبل پر سب موجود تھے جب ہادی صاحب نے علیحہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا!

"علیحہ میں نے تم سے بات کرنی ہے کھانے پینے سے فارغ ہوکر میرے کمرے میں آنا-”

تقریبا آدھے گھنٹے بعد علیحہ تمام کام سمیٹ کر ہادی صاحب کے کمرے میں گئی جسے دیکھ کر ہادی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا-
"آؤ میری بچی ! بیٹھو۔۔ تمہیں پتہ ہے نا آج میرے کزن سرمد صاحب آئے تھے- دراصل وہ تمہیں اپنے بیٹے حمزہ کی دلہن بنانا چاہتے ہیں۔ اب تم بتاو تمہارا کیا فیصلہ ہے۔ مجھے تو یہ رشتہ ہر لحاظ سے مناسب لگ رہا ہے مگر میرے لیے تمہاری رضامندی بہت ضروری ہے-”

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی۔
"ابو جیسے آپ کی خوشی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔”

گھر میں خوشی کاسا سماں تھا- ہر کوئی علیحہ اور حمزہ کے نکاح کی تیاریوں میں مگن تھے- نکاح کے چند ماہ بعد رخصتی کی تاریخ رکھی گئی تھی-

جمعہ کے روز بادشاہی مسجد میں ایک سادہ سی تقریب میں علیحہ اور حمزہ کا نکاح کر دیا گیا۔۔۔۔
مگر حمزہ نے اپنے والد سے ضد کرکے بولا کہ رخصتی بھی آج ہی لے لیں۔۔

سو سرمد صاحب نے ہادی صاحب سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو مناسب لگے تو ہم آج ہی رخصتی بھی چاہتے ہیں۔۔۔ سرمد صاحب کو یہ بات کچھ عجیب لگی۔ مگر وہ تاثرات پر قابو پاتے ہوئے بولے۔۔

"آپ کی ہی امانت ہے جب چاہیں رخصتی لے لیں۔۔۔۔” اور بالا آخر علیحہ بابل کی دعاؤں کے زیر سایہ پیا گھر سدھار گئی-

علیحہ سجی سنوری سیج پہ بیٹھی حمزہ کی منتظر تھی- کچھ دیر بعد حمزہ کمرے میں داخل ہوا۔ اور اس کے قریب آکر بیٹھ گیا- اس کی انگلی میں نازک سی انگوٹھی ڈالی۔۔

اور کہنے لگا کہ "جب نکاح کے بعد پہلی بار میں نے تمہیں دیکھا تو تمہاری سادگی اور معصومیت نے مجھے مجبور کر دیا کہ یہ رخصتی بھی آج ہی ہونی چاہیے-”

میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ تمہارا خیال رکھوں ۔ مگر یہ کہ میں اپنے گھر والوں کو بھی بہت چاہتا ہوں۔۔۔”علیحہ خاموشی سے سنتی گئی ۔

شادی کے بعد کچھ عرصہ بہت سکون سے گزرا ۔ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ٬پھر حمزہ کی جاب شروع ہو گئی۔ اور عیحہ گھر کے کاموں میں مگن ہو گئی ۔۔ جہاں تک ممکن اور جتنی ہمت ہوتی وہ اپنا کام بہت محبت اور محنت سے کرتی ۔

مگر اس کی جیٹھانی اور دیورانی اپنے حصے کا بھی کام بعض اوقات ساس سے بول کر اس کے حصہ میں ڈال دیتیں۔

اسے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کام کرنا پڑتا۔ وہ شوہر کو بتاتی تو وہ بھی کہتا تم خاموش رہو کسی کی بات کا جواب نہ دو۔۔۔۔ اس نے ایک دو بار ماں سے بھی بات کرنی چاہی مگر ماں اسے چپ کروا دیتی ۔۔۔ اس کی غلطی ہوتی یا نہ ہوتی اسے ہی معافی منگوائی جاتی۔۔۔

یہاں تک کہ اس کے کمرے سے اس کا زیور چوری ہو گیا اس پہ بھی اسے کسی سے سوال کرنے کا حق نہ تھا۔ اس نے بولنا چاہا تو حالات ایسے بنا دیے گئے کہ حمزہ کو کہا گیا اسے چھوڑ دے ۔

اس وقت اس کے دو بچے تھے دونوں ہی چھوٹے تھے۔۔ بالاخر اسے خاموش رہنا پڑا ۔۔۔
پھر زندگی معمول پہ آگئی۔۔۔
ایک دن دیورانی کا زیور چوری ہوگیا –
اسے بولا گیا!” امی جی یہ ہی باہر سے بیاہ کر لائی گئی ہے اسی نے چرایا ہو گا۔۔۔۔”
اس بار علیحہ بھی بول اٹھی کہ امی یہ زیادتی ہے ۔۔میں نے چوری نہیں کی اور میں کوئی تلاشی نہیں دوں گی وہ یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

شام میں جب حمزہ آفس سےآیا تو اسے بتایا گیا تمہاری بیوی نے بد تمیزی کی ہے ۔۔۔۔۔
حمزہ نےآکر علیحہ سے پوچھا تو اس نے سب بتا دیا ۔ مگر چونکہ ماحول کی گرما گرمی تھی۔ تو اس نے کہا تم میری خاطر معافی مانگ لو۔۔۔ پھر علیحہ کو معافی مانگنی پڑی ۔۔۔۔۔

ایک صبح اچانک بی بی عاتکہ (حمزہ کی ماں) ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے سیڑھیوں سے گر پڑیں جب انہیں سیدھا کیا گیا۔ تو معلوم ہوا انہیں فالج ہوگیا ہے۔۔۔

سب ان کے اردگرد جمع تھے۔۔ شوگر پہلے سے تھی ۔ لیکن جب معالج نے چیک اپ کےبعد ا ن کا خیال رکھنے کا بولا تو سب آگے پیچھے ہو گئیں۔

علیحہ نے تندہی سے ان کی خدمت کی- چار مہینوں میں بھی ان کی حالت میں کوئی سدھار نہ تھا۔ ایک روز ان کے اعصاب کی حرکت میں بھی کمزوری دیکھی گئی۔ معالج نے جواب دے دیا اس کا کوئی علاج نہ تھا ۔ بچوں سمیت بہو اور بیٹی کی ذمہ داری تھی کہ وہ دادی کا خیال رکھیں ۔ مگر ان جان کنی کا عالم تھا-

کیونکہ ایک رات ان کی ٹانگوں سے کپڑا ہٹایا گیا تو اس میں کیڑیاں چپکی ہوئی تھیں انہوں نے فورا صفائی کی ۔ مگر ہر تھوڑی دیر بعد ٹانگوں کی وہی حالت ہوتی۔ بستر صاف رہتا اور وہ جگہ بھی جہاں ان کی چارپائی تھی۔۔۔ مگر ان کی ٹانگیں……

وہ ایک تہجد گزار اور صوم و صلوہ کی پابند خاتون تھیں۔۔۔۔ مگر وہ اس حال میں تھیں کہ بے یارومدگار جان کنی کے عالم میں تھیں اور ان کی حالت دیکھ کر حمزہ بہت شدید دکھ میں تھا ۔۔ کیونکہ ان کی ماں جان کنی کی حالت میں تڑپ رہی تھیں۔

بالاخر وہ شکستہ وجود کے ساتھ اپنی بیوی کے سامنے تھا ۔ وہ کہنے لگا ” دیکھو علیحہ میں جانتا ہوں کہ میری ماں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ تم ایک بار کہہ دو کہ تم نے ان کو معاف کردیا ہے تاکہ ان کی جان آسانی سے نکل جائے گی۔۔۔۔

علیحہ سے حمزہ کی حالت برداشت نہ ہوئی تواس نے کہا کہ میں سچے دل سے انہیں معاف کرتی ہوں۔۔۔” چاہیں اس کے گھر والوں نے علیحہ پر کتنی ہی زیادتی کی ہو مگر حمزہ نے اس کی ہر ضرورت ۔ خواہش اور حاجت پوری کی تھی- مگر وہ رشتوں کی زنجیر کا قیدی تھا ۔۔۔۔۔

ادھر اس کی طرف سے معافی کا اعلان ہوا اور ادھر اگلی صبح جنازے کا اعلان ہوا- مگر سوال یہ ہے آخر کب تک رشتوں کے پیرائے میں یہ زنجیر زنی ہوتی رہے گی!

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.