خوف ( تحریر : رضوان الحق زین ، کوہستان لوئر )

اس برف میں یہاں کسی کی آمد ممکن نہیں ہے۔

کیسی چیخ ؟ میں نے تو کوئی چیخ نہیں سنی۔ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے خوفزدہ طارق نے سہمے ہوئے مستعان اور معروف کو دیکھتے ہوئے کہا۔

مستعان جو خود کو زرا بہادر سمجھتا تھا اس نے آہستگی سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ” اس برف میں یہاں کسی کی آمد ممکن نہیں ہے۔تو پھر یہ کس طرح کی آواز تھی“؟ معروف جو تھوڑا ڈرپوک تھا۔ انہوں نے جلدی جاکر لحاف کے نیچے چھپتے ہوئے گویا ہوئے کہ ” یہ بالکل واضح کسی آفت کی آواز ہے۔ لہذا ہمارا مرنا اب پکا ہے۔ ہمیں اب دعائیں مانگنا چاہیے۔

یہ کہتے ہوئے وہ ہکلاتے ہوئے رب کے حضور گریہ زاری کرنے لگے۔ اس کی باتوں سے دوسرے ساتھی بھی بہادر اور نڈر ہونے کے باوجود خوفزدہ ہوگئے۔ ایک دوسرے کی طرف متجسس نظروں سے دیکھتے ہوئے ان کی سانسیں بہت تیز چلتی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ بہت ذیادہ چڑھائی پر گرنے والی پانی کے اوپر واقع پن چکی کا پانی شور کررہا ہے۔ان کی دلوں میں اس مدھم سی چیخ سننے کے بعد ہزارہا باتیں جنم لے رہی تھیں۔کبھی ان کے سامنے اس چیخ کے حامل بلا کا خیالی تصور ابھر رہا تھا تو کبھی وہ اپنے ساتھ کمرے کی تاریکی میں محسوس کررہے تھے۔حالانکہ کمرے کے درمیان میں واقع بڑے سے دیسی چولھے میں جلتی آگ اس چیخ سے بے خبر پوری آب و تاب کیساتھ جل رہی تھی۔

دھوئیں کی برسات اور چنگاریوں کی چٹخنے کی آوازیں اس بات سے بے خبر تھی کہ ان کے اردگرد بیٹھے ہوئے تین زندھ لوگ کوئی خوفناک آواز سن کر پھٹے ہوئے لحافوں میں کہیں بڑے گودام میں رکھے گڑ کی بوریوں کی طرح ساکن دبکے بیٹھے ہوئے ہیں۔کبھی کبھار مستعان خوف سے پر انداز میں گردن اٹھا کر ساتھیوں پر نظر ڈالتا۔جو کسی خوفزدہ ہرن کی طرح جو کسی شکاری کے ڈر سے زندگی کے خاطر درختوں کا اڑ لیتا ہے ، کی طرح لحافوں کے اڑ لیکر خود کو اس متوقع آفت سے بچانے کی کوشش کررہے تھے۔

پہاڑوں کے دامن میں واقع بستی جو اب برف باری کی وجہ سے سفید چادر اوڑھ چکی تھی۔سارے گھر برف کے تلے آنے کیلئے تیار ہی تھے۔اب بھی شدید بارش اور برف باری جاری تھی۔لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہوئے تھے۔مستعان ، معروف اور طارق کے خاندان والوں کے گھروں سمیت تقریباً یہاں دس گھر واقع تھے۔یہ بالکل پہاڑی علاقہ تھی۔یہاں موسمِ سرما میں بہت ذیادہ برف باری ہوتی تھی۔کئی فٹ برف پڑتا تھا۔یہاں کے لوگ بہت ذیادہ محنت کش تھے۔وہ زراعت سے وابستہ تھے۔گندم اور مکئی کے فصلیں اگاتے تھے۔اس کے علاوہ شہری علاقہ جات سے بہت دور واقع ہونے کی وجہ سے وہاں ان کا ذیادہ آمد و رفت نہیں ہوتی تھی۔

اپنے کھیتوں کی پیداوار کو پن چکیوں میں پیس کر کھاتے تھے اس کے علاوہ ان کے پاس مویشیاں تھی جن کا دوده نکال کر پیتے تھے۔بعض اوقات ان کو ذبح کرکے کھاتے تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگی کے شب و روز بسر کرتے رہتے تھے۔وہ نسبتاً پرامن وادی تھی۔جہاں صرف خوفناک پہاڑی قصوں کے علاوہ کچھ بھی خوفناک نہیں تھا۔وہ بالکل پر امن اور بھائی چارے والی زندگی گزار رہے تھے۔وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ تھے۔ بے جا کسی دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرتے تھے۔

اس برف باری والے عصر کے وقت اس بستی کے تین نوجوانوں مستعان ، طارق اور معروف نے بستی کے اجتماعی ہجرے میں رات گزارنے کا تہیہ کرلیا تھا۔جو بستی سے زرا الگ تھلگ فاصلے پر واقع تھا۔سارے بستی کے لوگ گرمیوں میں یہاں بیٹھتے تھے۔بستی میں کسی کے ہاں کوئی مہمان آجاتا تو اسے وہاں ٹھراتے تھے۔لیکن سرما میں اکثر یہ ویران رہتا کیونکہ سرما میں مہمان بھی نہیں آتے تھے اور بستی کے لوگ بھی سردی کی وجہ سے وہاں جانے کو ترجیح نہیں دیتے تھے اور اپنے گھروں میں مقید ہوکر رہ جاتے تھے۔ ان تینوں نے عصر کے وقت کھانا کھاکر مغرب کی نماز سے پہلے ہی اس اجتماعی ہجرے میں جاکر آگ جلایا اور ضروری افعال سرانجام دینے کے  بعد مغرب کا نماز پڑھ کر دروازے کو زور سے بند کرکے پیچھے بھاری شے رکھا تاکہ کوئی دروازہ کھولنے کی جرات نہ کرسکے۔

وہ تینوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے پھر عشاء کے وقت کا نماز پڑھنے کے بعد وہ دوبارہ آگ کو تیز کرنے کے بعد ہجرے میں موجود لحاف اوڑھے خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ساتھ اپنے گھروں سے لائے ہوئے اخروٹ کے مغز کھاتے ہوئے وادی کے معاملات پر بحث کرنے لگے۔سردیوں کی راتیں لمبی ہونے کی وجہ سے وہی رات کیچوے کی رفتار سے صبح کی طرف محو سفر تھی۔جب رات گہری ہونے لگی۔ ہر طرف خاموشی چھانے لگی۔تقریباً رات کا دوسرا پہر ہوگا جب دور بستی میں واقع گھروں میں جلتے چراغ مدھم پڑنے لگے تو خوش گپیوں میں مصروف جوانوں کو دور کہیں پہاڑ پر ایک غیر انسانی اور انتہائی بھیانک چیخ سنائی دینے لگی۔ایسا لگ رہا تھا کوئی جانور اور انسان کے ملاپ سے یہ چیخ بنی ہوئی ہے۔جو بتریج قریب آرہی تھی۔سرد موسم میں برف باری کی وجہ سے محصور زمین چھوٹے آواز کو بڑا کررہا تھا۔

معروف کو دعائیں مانگتا ہوا دیکھ کر وہ دونوں بھی اپنی اپنی بستروں پر دبک کر بیٹھ گئے۔ ان کے پاس تین بندوقیں تھی۔ان تینوں نے وہ لیکر اپنے قریب رکھا اور آگلے لمحات کا انتظار کرنے لگے۔اسی اثنأ میں ان کا کلیجہ حلق کو آیا جب انہیں قریب کہیں کتے کی زور سے بھونکنے کی آواز سنائی دینے لگی۔

ایک لمحے کو تو وہ بے ہوش ہونے کے قریب ہوئے لیکن پھر کتے کی آواز پہچان کر ان کی جان میں جان آئی اور وہ اس بھاری رات کا لمحہ لمحہ ایک سال جتنا بڑا ہونے لگا۔موسم سرما کی لمبی رات اور اوپر سے سنائی دینے والی چیخ انہیں زدوکوب کررہی تھی۔ انہیں وہ بھیانک چیخ دوبارہ سنائی دی جو پہلے کے نسبت زرا قریب معلوم ہوتی تھی۔جبکہ چھت پر انہیں شدید اور مسلسل برف باری کی آوازیں آرہی تھیں۔ساتھ بستی کے بھونکتے آوارہ کتے بلیاں بالکل ساکن تھے۔ان کی طرف سے اب آوازیں آنا موقوف ہوچکا تھا۔ایک پر اسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔جبکہ ایسی ہی خاموشی اور شدید ترین خوف کا سماں بستی سے زرا پرے واقع ہجرے میں بھی چھایا ہوا تھا۔ جہاں پر موجود تین جوان پراسرار آوازیں سن کر خود کو کوس رہے تھے کہ وہ یہاں رات گزارنے کیلئے بھلا کیوں آئے تھے؟

اگر وہ اپنی گھروں میں رہتے تو محفوظ رہتے مگر اب ان کا مرنا لازمی ہوچکا ہے۔ان کچھ منٹس میں وہ دل میں جتنے بھی دعائیں یاد تھے وہ پڑھ چکے تھے۔ معروف کا دل کسی مصروف پن چکی کی طرح زور زور سے دھڑک رہا تھا۔بعض وقت اتنا زور سے دھڑکتا تھا کہ وہ مرنے کے قریب ہوجاتا۔وہ خوف سے سب کچھ بھول کر صرف یہ کہنے کی کوشش کررہا تھا کہ ” میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ میرا کیا قصور ہے؟ مجھے نہ کھاٶ“ اسی اثنأ میں وہ چیخ دوبارہ بہت ذیادہ قریب کہیں سنائی دینے لگی۔تو وہ مزید سہم کر رہ گئے اور انہوں نے بندوقیں مزید قریب کردیا اور اسی لمحے آواز ان کے چھت کے پیچھے سے آنے لگا۔وہ بہت ذیادہ خوفزدہ ہوگئے تو مستعان کو اپنے ساتھیوں کی گریہ زاری تنگ کرنے لگی تو اس نے ان دونوں پر بندوق تان کر کہا کہ” اگر کسی کے منہ سے خوف کی وجہ سے کچھ الٹا نکلا یا آپ میں سے جو حواس باختہ ہوا تو اس کو میں اپنی گولی سے اڑادونگا۔

اب چپ چاپ بندوقیں سنبھال کر اس آفت کی آمد کا انتظار کریں“ وہ دونوں بہت ڈرتے تھے اور اس آواز سے سہمے ہوٸے تھے لیکن ”مرتے کیا نہ کرتے“ کے مصداق مستعان کی بات مان کر بندوقیں سنبھال کر چپ چاپ دروازے کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئے اور آواز والی آفت کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔اب انہیں لگا کہ چھت پر کوئی ہلکا سا چیز چکر لگارہا ہے۔اس کے علاوہ بہت وہ کچھ عجیب سے آوازیں بھی نکال رہا ہے۔تقریباً وہ آفت دس منٹ تک ان کی ہجرے کے چھت پر گردش کرتا رہا اور وقتاً فوقتاً بھیانک آوازیں نکالتا چلا جارہا تھا۔پھر ایک دم اس آفت نے چھت سے نیچے چھلانگ لگادی۔یہ محسوس کرکے وہ چوکنے ہوگئے اور دروازے کی جانب متوجہ ہوئے کہ اب اس پر زور لگے گا۔جو انہوں نے سوچا تھا وہی ہوا۔ دروازے پر اس زور سے ہاتھ یا اور کچھ مارا گیا کہ جیسے کوئی بیل زور سے سینگ مارتا ہو۔دروازے کو کچھ خاص نہیں ہوا کیونکہ وہ مضبوط تھا۔اس کے علاوہ پیچھے بہت بڑا بوجھ رکھا ہوا تھا۔

وقفے وقفے سے وہ آفت دروازے میں مارتی رہی اور وہ تینوں بندوقیں تان کر دروازے کی سمت دیکھتے رہے۔ پھر دروازے پر زور لگانے والی بلا خاموش ہوئی۔ کچھ وقت تک بستی میں وہی پراسرار کچھ ساعتوں پہلے والی خاموشی قائم رہی۔وہ تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور پھر ایک ساتھ دروازے کی طرف دیکھتے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد انہیں محسوس ہوا کہ ان سے کچھ فاصلے پر واقع بستی کے اولین گھر پر یا قریب سے وہ آوازیں آئی ہیں اور پھر کچھ شور سا ہوا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ اس آفت نے کسی کو پاکر اسے ہلاک کردیا ہے۔ان کا جی چاہا کہ جاکر معلومات حاصل کرلیں کہ کیا ہوا ہے؟ کیونکہ وہ گھر معروف کا تھا لیکن اس آواز کی ڈر سے انہوں نے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کی۔

بستی کے پہلے گھر میں موجود گدڑیا ساجد اپنی بستر پر اپنے اس قوی الجثہ بکرے کے بارے میں سوچ رہا تھا جو آج اس کے بکریوں کے ریوڑ سے جدا ہوکر گم ہوا تھا۔ جس کو آج اس برف باری کے باوجود اس نے سارا دن ڈھونڈا تھا لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔وہ آخر کار شام کے گہرے سائے دیکھ کر اس بکرے کی تلاش چھوڑ کر واپس گھر آیا تھا اور آج اس وجہ سے نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی کیونکہ یہ اس کا سب سے پسندیدہ اور عزیز بکرا تھا۔

اچانک کہیں سے کوئی آواز سن کر وہ چوکنا ہوا تھوڑی دیر بعد وہ آواز قریب ہوئی اور اس کے بکریوں کے ریوڑ کی رکھوالی کیلئے موجود کتا بھی زور سے بھونکنے لگا۔تو وہ اپنی بندوق اور اپنے بھائی ماجد کو لیکر باہر نکلا۔تو کیا دیکھتا ہیکہ اس کا بکرا سردی سے بہت بری طرح کانپ رہا ہے۔اس کے علاوہ وہ برف میں رہنے کی وجہ سے خوفناک آوازیں نکال رہا ہے۔ساجد نے اسے پکڑ کرریوڑ کے دوسری مویشیوں کیساتھ باندھ لیا تو اس کو کچھ گرمی محسوس ہوئی تو اس نے چیخنا بند کردیا اور ساجد نے سکھ کا سانس لیکر اپنی بستر پر گہری نیند سونے کیلئے چلا گیا۔

باہر کی خاموشی پر ان تینوں کی خاموشی بہت بھاری تھی کیونکہ کبھی کبھار دور کہیں کتے بھونکنے کی آوازیں گہری خاموشی کو توڑ دیتے تھے۔لیکن ہجرے میں موجود مستعان ، طارق اور معروف پر اس چنگھاڑ نے اتنا اثر کیا تھا کہ ان کی زبان سے باتیں نکلنا بند ہوگیا تھا۔تقریباً ایک گھنٹہ وہ اسی طرح بندوق تھامے دروازے کی طرف دیکھتے رہے۔

نہ جانے کب نیند ان کی کھلی آنکھوں پر غالب آئی وہ تینوں بیک وقت سوگئے۔ وہ سہمے ہوئے دل کیساتھ ایسے سوئے تھے کہ دن دس بجے ان کی گھر والوں کو فکر ہوئی اور  انہوں نے جاکر ان تینوں کو جگایا تو وہ عجیب نظروں سے انہیں دیکھنے لگے۔پ وچھنے پر انہوں نے کل رات کو وقوع پزیر ہونے والی تمام کہانی ان گوش گزار کردی تو وہاں پر موجود ساجد نے اپنے بکرے کی کل گم ہونے اور رات گئے خود گھر واپس آنے کا واقعہ بیان کیا تو وہاں موجود تمام لوگ ہنسنے لگے اور اتنا ہنسے کہ ان تین بے چاروں کو بھی ان کیساتھ ہنسنا پڑا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.