حرامی (اردو افسانہ، از قلم شازیہ رانا)
اب جب بھی وہ آتے وہ منہ پر زبردستی کی مسکراہٹ لا کر ان کا خیر مقدم کرتا ۔

ہاشم ٹکٹکی باندھے لان میں لگے ہوئے درخت کے گرتے پتوں کو دیکھ رہا تھا جن کے گرنے کا وقفہ تو طویل تھا لیکن جب کوئی ہوا کا جھونکا آ جاتا تو وہ زیادہ تیزی سے گرنے لگتے ۔
ایک دن ہاشم کی دور کی خالہ نے سب کے درمیان میں بیٹھے ہوئے کہا تھا کہ ہاشم کی زبان کالی ہے یہ جو کہتا ہے وہ ہو جاتا ہے ۔ گھر آ کر اس نے شیشے میں دیکھا تو ایسا کچھ نہیں تھا اس کی زبان تو سب جیسی عام سی تھی ۔ پھر ذہن کی رو بھٹکی اور ابا کی طرف دھیان چلا گیا کہ کبھی غلطی ہو جانے پر وہ کیسے قصائیوں کی طرح مارتا تھا کہ اگر کوئی بچانے آتا تو اسے بھی روئی کی طرح دھنک دیتا۔ ابا کا ذہن میں آتے ہی شکل ایسی ہو گئی تھی جیسے کڑوا بادام دانت کے نیچے آ گیا ہو۔
ہاشم ماں سے پوچھ رہا تھا کہ آخر پھپھو کے بچے آئے دن ان کے گھر کیوں آ جاتے ہیں. کیا ان کا اپنے گھر دل نہیں لگتا ؟؟ ماں نے آنکھیں دکھا کر اسے چپ کرا دیا تھا ۔ اب جب بھی وہ آتے وہ منہ پر زبردستی کی مسکراہٹ لا کر ان کا خیر مقدم کرتا ۔
ہاشم کو سجو خالہ پر بھی بڑا تاؤ آتا تھا جنہیں اسے دیکھ کر فوراً کام یاد آ جاتا جو اسے کبھی دوکان ، کبھی درزی اور کبھی دوپٹہ پیکو کرانے بھیج ساتھ میں اپنے بیٹے کا نام لے کر جتانا نہ بھولتی کہ قاسم کو کہا تھا کر دو ویسے بھی تو کتوں کی طرح گلیوں میں پھرتے رہتے ہو پر نہیں جی ماں کی بات کون سنتا ہے ۔
ہاشم ایک دن بازار سے گزر رہا ہو سکتا ہے کہ دھیان دئیے بغیر گزر جاتا لیکن اپنا دوست دیکھا اوپر سے اس کی مشکوک سرگرمیاں تو وہیں رک گیا اور پاس جا کر ماجرا پوچھا تو کہنے لگا یہ بندہ دودھ میں پانی ملاتا ہے اور جب پوچھو تو فوراً مکر جاتا ہے ۔
اب میں نے اور علی نے اس کی درگت بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، وہ جو دودھ والا برتن پڑا ہے ہم اس میں مینڈک پھینک دیں گے آور ساتھ ہی اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک ادھ مرا سا مینڈک نکال لیا جو آکسیجن کی کمی سے تقریباً مرنے کو تھا ۔
ہاشم زیرلب مسکرایا اور اپنی راہ کو چل دیا ۔۔ گھر پہنچنے تک پھپھو بمعہ اہل و عیال آئی ہوئی تھی ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھائی بھائی کہتا اس کی گود میں چڑھ گیا تھا جسے ہاشم بھی والہانہ پیار کر رہا تھا ۔ سب کو ملنے کے بعد جونہی وہ مڑا اس کی ٹکر پھپھو کی بیٹی سعدیہ سے ہو گئی جو جوس لے کر آ رہی تھی ۔ جوس اس کے کپڑوں پر گر چکا تھا اور اب سعدیہ اسے صاف کر رہی تھی ۔ ساتھ ساتھ کن اکھیوں سے اسے دیکھ بھی لیتی۔
رات کو ہاشم سونے کو لیٹا تو سعدیہ پھر آن وارد ہوئی اور صبح والی حرکت پر شرمندگی کا اظہار کرنے لگی تو ہاشم نے کھلے دل سے اسے معاف کر دیا لیکن اس نے جب واپس جانے کے لیے دروازہ کھولنا چاہا تو وہ کھلا ہی نہیں اور ایک چابی جو ہمہ وقت دروازے میں موجود رہتی تھی وہ بھی غائب تھی۔
ہاشم کے لیے یہ صورت حال بہت پریشان کن تھی کیونکہ رات کے اس پہر وہ دونوں کمرے میں اکیلے تھے ۔۔ ہاشم نے فون کرکے دروازہ کھلوایا تو سعدیہ نے دروازہ کھلتے ہی پھپھو کے گلے لگ کر اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا اور جب پوچھا تو کہنے لگی میں آپ کے بھتیجے کی وجہ سے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ ہاشم قسمیں ہی کھاتا رہ گیا کہ اس نے کچھ نہیں کیا لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی اور مولوی کو بلانے بھیج دیا گیا کہ گھر کی بات گھر میں رہ جائے ۔
ہاشم قدرت کے اس کھیل پر حیران و ششدر تھا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سعدیہ یوں بن بلائے مہمان کی طرح اس کی زندگی میں آ جائے گی ۔ اس نے نوٹ کیا تھا کہ سعدیہ اب ہواؤں میں اڑتی پھرتی تھی یوں جیسے اسے کوئی ہفت اقلیم مل گیا تھا ہاشم نے اسے قدرت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا تھا اور اب کسی سے کوئی شکایت نہ تھی ۔
رانیہ اونچی آواز میں کوئی گیت گنگنا رہی تھی جو ناک میں گانے کی وجہ سے اور کا اور ہی ہو گیا تھا ۔۔ عظیم نے جب کانوں میں انگلیاں دی تو وہ مزید اونچا گانے لگی تو وہ دانت کچکچا کر اٹھ ہی گیا پر نادیہ کو یہ کہنا نہیں بھولا کہ خالہ کو بھی نجانے کب خیال آنا کہ اس بلا کو رخصت کروا کر لے جائیں جو بس کندھے اچکا کر رہ گئی ۔ رانیہ نے آگے پڑھنے کا منصوبہ بنایا تو عظیم نے حسب عادت روڑے اٹکانے چاہے کہ جتنا پڑھ لیا ہے بس ٹھیک ہے تو اس نے اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے یونیورسٹی میں ایڈمشن لے لیا تو عظیم بھی بک جھک کر خاموش ہو گیا ۔
سردیوں کی آمد آمد تھی تو امی نے پیٹیاں خالی کروا کر تمام بستر ہوا لگوانے کو چھت پر پھیلائے ہوئے تو رانیہ نے آرام سے جھنڈی دکھا دی کہ اسے یونیورسٹی سے کام ملا ہے تو وہ مصروف ہے رہ گئی نادیہ تو وہ ماں کے ساتھ خاموشی سے لگ گئی۔ امی ساتھ ساتھ کام کرتی اور ساتھ میں اس کی قصیدہ گوئیاں کرتی جا رہی تھی کہ باہر بیل ہونے پر جا کر دیکھا تو کوئی 12,13 سال کا لڑکا ہاتھوں میں پلیٹ لئے کھڑا تھا.
پوچھنے پر بتایا کہ وہ لوگ کل ہی شفٹ ہوئے ہیں آج ختم دلایا تھا تو وہ یہ دینے آ گیا نادیہ شکریہ کہہ کر آگئ اور آکے امی کے ساتھ ان کے ہاں چلنے کا قصد کیا ۔۔ شام کو ان کے ہاں گئے تو ایک عدد آنٹی اور دو لڑکیاں نہایت تپاک سے ملیں۔۔ آج کل وہ لوگ اپنے بیٹے کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہے تھے جو امریکہ سے ڈاکٹر بن کر آیا تھا ۔۔ نادیہ ان کی امی کو پسند آ گئی تھی اور لڑکے کو دکھانے کو اس کی تصویر مانگی گئی تھی جو بخوشی دے دی گئی تھی۔
تصویر کے پسند آنے پر چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کا فیصلہ ہو گیا تھا ۔۔ رانیہ کا رشتہ تو پہلے ہی طے تھا چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں بہنوں کو اکٹھا رخصت کر دیا جائے گا ۔
جس دن بارات تھی عین اس وقت رانیہ کے سسرال والوں نے گاڑی کا مطالبہ کر دیا اور انکار پر نکاح کرنے سے منع کر دیا ۔۔ گھر میں صف ماتم بچھ گئی اور نکاح منسوخ ہو گیا ۔۔ لڑکی کے والد ہاشم کے چچا تھے اور جانتے تھے کہ کچھ دن پہلے ہی ہاشم نے کسی چپقلش کی بنیاد پر اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی سو اس سے رانیہ سے نکاح کی درخواست کی جو وہ کچھ پس و پیش کے بعد مان گیا کہ آخر چچا کی عزت کا سوال تھا ۔۔
یوں کالی زبان والے ہاشم کی شادی رانیہ سے ہو گئی ۔۔ یہ بھی ہاشم کی کالی زبان کا ہی کمال تھا کہ وہ اکثر شدت سے دعا کرتا تھا کہ اس کی رانیہ سے شادی ہو جائے لیکن پھر خود کو خود ہی دلاسہ دے لیتا کہ یک طرفہ محبت میں معجزے کہاں ہوتے ہیں ۔۔ اس کی دعا قبول ہو گئ تھی اور سات آسمانوں کے پار اس کی دعا نے شرف قبولیت حاصل کر لیا تھا.
رانیہ نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا لیکن پھر قسمت کے لکھے پر شاکر ہو کر خاموش ہو گئی ۔۔ نادیہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی کیونکہ اس کا خاوند اس کا بہت خیال رکھتا تھا. خوش تو رانیہ بھی رہنے لگی تھی کہ ہاشم بھی بہت محبت کرنے والا شوہر تھا ۔ ہاشم کو اپنے بابا سے ہمیشہ سے یہ گلہ تھا کہ اتنی عمر گزرنے کے باوجود طبیعت میں ٹھہراؤ نام کو نہیں تھا کہ اگر غلطی سے بھی کوئی ہتھے چڑھ جاتا تو اسے نانی یاد دلا دیتے ۔ زندگی رینگ رینگ کر چل رہی تھی پر ایسی زندگی کو دھکا دے کر متحرک کیا ہوا تھا۔
ہاشم رانیہ کو کچھ نہیں کہتا تھا وہ سیاہ کرے سفید کرے اس کی بلا سے بس دونوں کے درمیان لاتعلقی کی دیوار کھڑی تھی جسے دونوں میں سے کوئی بھی گرانا نہیں چاہتا تھا ۔۔ رانیہ نے سکول میں نوکری کر لی تھی اور میٹرک کی لڑکیوں کو تعلیم دے رہی تھی اسے پڑھانا بہت اچھا لگتا تھا وہ سمجھتی تھی جتنا مرد معاشرے کے لیے کارآمد ہے عورت کی پڑھائی بھی اتنی ہی ضروری ہے ۔ ویسے بھی تو گھر میں رہ کر لوگوں کی چغلیاں ہی کرنی ہوتی ہیں ۔
عمارہ رانیہ کی بہترین شاگرد تھی لیکن کچھ دن سے عجیب سی سرگرمیوں میں مبتلا ہو گئ تھی ۔۔ بیٹھے بیٹھے مسکرانا پھر بے وجہ گلی کے چکر لگانا اکثر موبائل پر لمبی لمبی گفتگو کرنا تو رانیہ کا ماتھا ٹھنکا اس نے دوران گفتگو عمارہ سے فون مانگا تو اس کا رنگ اڑ گیا آخر کچھ پس و پیش کے بعد فون دیا تو حسب اندازہ دوسری جانب کوئی لڑکا تھا جسے رانیہ نے خوب سنا کر آئندہ فون نہ کرنے کا کہہ کر فون بند کر دیا ۔۔ اسے طرح کے چند مزید واقعات ہوئے اور رانیہ پرنسپل کی منظور نظر بن گئی اور ایک خصوصی مقام حاصل کر لیا۔
ہاشم کے ہمسایہ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ زندگی کی بازی ہار گئے ۔۔ ان کے مرنے کے کچھ دن بعد ہاشم ماں کے پاس آیا اور تعسف سے کہا ابا پر مجھے غصہ تھا جو آپ پر ہاتھ اٹھایا تو میں نے بھی ابا کو بد دعا دی کہ ابا مر جائے پر وہ تو ساتھ والا جمیل مر گیا ۔۔ ماں نے اٹھ کر ایک زناٹے دار تھپڑ ہاشم کے منہ پر جڑ دیا جس نے ثابت کر دیا کہ مرنے والا ہاشم کا کون تھا.