بے داد گری ( آئمہ درانی ، جہلم )

وہ مڑی، یہ اٹھا، وہ چلی ،یہ چلا۔ وہ آگے یہ پیچھے، نشانِ قدم پر چلتا، بنا رکے، بنا تھکے.

بے داد گری
اب لاکھ تیرے در کے دریچے کھلے رہیں
آواز مر گئی تو صدائیں کہاں سے دوں

لکڑی کے دروازے کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا. اندر کے کچے احاطے میں آکاس بیل چار دیواری کے ساتھ ساتھ بڑھی ہوئی تھی. صحن کے وسط میں برگد کا بوڑھا پیڑ اپنا سایہ پھیلائے کھڑا تھا. جسکے چاروں اطراف گول چبوترا اٹھایا گیا تھا.

دور جہاں راستہ کاٹ دار چوراہے میں بدلتا ہے وہاں سے معذن کی نوحہ کناں آواز یاں تک آتی تھی. سہ پہر کے سائے گھٹنے لگے تھے. وہ برگد کی چھال سے لگی بیٹھی تھی. سفید بے داغ لباس میں ملبوس، کاندھوں کے گرد سرخ شال اوڑھے، پیر چپل کی قید سے آزاد، مسافت کی تھکن صاف بتاتے تھے. اسکی اٹھی ہوئی نظریں آج بھی اٹھی ہوئی تھیں. بھلا اسکی نظر کیسے جھک جاتی.

آدھ کھلے پٹ سے باہر وہ اس دہلیز کا مجاور تھا. اس چوکھٹ کی گداگری نہ کرتا تو توہین محبت کرتا. کاندھوں کے گرد سیاہ شال لپیٹے وہ دروازے کے بند پٹ سے کمر ٹکائے بیٹھا تھا. سر گھٹنوں پہ دھراتھا۔ آنکھیں اس سمت اٹھی تھیں جہاں سے وہ آواز آتی تھی، مگر وہ خاموش تھا۔خاموش کیوں نا ہوتا؟ اب یہ بھی نا خاموش ہوتا؟ پھر یہ بھی نا خاموش ہوتا تو وہ نظریں کیسے اٹھی رہتیں؟

ہمیں قتل کیا جائے گا اور اسکے بعد
دکھایا جائے گا لوگوں کو یہ محبت ہے
آئمہ درانی

اس چند سطروں پر مشتمل تحریر کو اس مجاور نے پڑھا تھا، پھر پڑھا تھا، پھر صدرِ لحد کی اس مٹی کو عقیدت سے چوما تھا جہاں وہ عریضہ رکھتے ہوئے اس کی ہتھیلی دھری تھی۔ وہ آخری الفاظ اس کے دل میں بیٹھ گئے تھے۔ دربار کے احاطے میں موجود ایک ایک شخص نے اس زندہ پر فاتحہ کی تھی۔ وہ کورا کاغذ لئے الٹے قدموں سے پھرا تھاان قدموں پہ جو اسکی منزل کے نشاں تھے۔

چند گام چل کو وہ رکا، نظریں تو یوں بھی محوِ طوافِ خاک تھیں ۔ وہ پورے قد کا جوان دو زانو بیٹھ گیا۔ بغیر چپل کے پیر مسافت کی تھکن صاف بتاتے تھے۔سرخ شال کا ایک پلہ دربار کی دہلیز پر موجود سفید سنگِ مر مر کو چھو رہا تھا۔ ان انگلیوں کی پوروں نے ان پیروں کو چھوا۔ اٹھی نظروں والی کی آنکھیں ڈھلتے آفتاب کی ہدت سے جلنے لگیں ۔

وہ مڑی، یہ اٹھا، وہ چلی ،یہ چلا۔ وہ آگے یہ پیچھے، نشانِ قدم پر چلتا، بنا رکے، بنا تھکے، ضامن کی طرح، محافظ کی طرح، مجاور کی طرح
اسنے لکڑی کے دروازے کو ادھ کھلا رہنے دیا۔ ایک برگد کا پیڑ نظروں کے سامنے تھا، ایک آکاس بیل دل تک گڑھ چکی تھی۔ جانتی تھی وہ قدموں میں بیٹھا رہے گا، آواز لگائے گا نا صدا دے گا، سو اب یہ در کھلا رہے گا۔

You might also like
1 Comment
  1. Syed Hadi Hassan says

    سبحان اللہ سبحان اللہ ۔۔۔۔۔ تحریر کا سحر اب بھی طاری ہے۔
    آئمہ درانی بہت باکمال لکھتی ہیں۔
    میری خوش قسمتی کے فیسبک پر وہ میرے ساتھ ایڈ ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.