ہم سا کوئی کہاں ( افسانہ، تحریر: فائمہ مشتاق احمد )
ڈرتی تو میں تیرے مرحوم دادا سے بھی نہیں تھی اللہ بخشے انہیں - پھر یہ فرحت آرا کس کھیت کی مولی ہے -

"نومی کے بچے کدھر مرگیا ہے "فون میں سے وصی کی آواز آئی
"اپنے کمرے میں اپنے بستر پر "نعمان عرف نومی اسی کا کزن تھا – اسی کے ہی انداز میں جواب دیا –
"جلدی نکل اور پہنچ دو منٹ میں مسئلہ گھمبیر ہے "وصی نے دانت کچکچا کر کہا –
"ٹھیک ہے میں بس پہنچ رہا ہوں ناشتہ ریڈی رکھو "یہ کہہ کر جلدی سے کال کاٹ دی جانتا تھا آگے سے کیا جواب ملنے والا ہے –
"بھوکا کہیں کا ہر وقت کھانے کی پڑی رہتی ہے "یہ کہہ کر وہ آصف کی طرف متوجہ ہوا -جو اداس صورت بناۓ بیٹھا تھا –
” پہلے تم نے جو یہ سڑے کدو جیسا منہ بنایا ہے اسے ٹھیک کرلو "وصی کو اسے آخر ٹوکنا پڑا جو کب سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا –
"تم تو ایسا ہی کہو گے مجھے- تمھیں محبت ہوجاۓ تب میں پوچھوں گا تم سے ” وصی کی بات آصف کے دل پر لگی –
"دیکھا جاۓگا تب "وصی نے ناک سے مکھی اڑائی – وہ دونوں باتیں کر رہے تھے کہ نومی بھی پہنچ گیا –
"لگتا ہے مجنون کی لیلی کا پھر سے کوئی رشتہ آیا ہے "نومی آتے ساتھ ہی صورت حال سمجھ گیا تھا –
"دیکھ بھائی کچھ کرلو تم دونوں ورنہ میری گل بانو کی شادی ہوجاۓ گی اگر ایسا ہوا تو میں مرجاؤں گا ” آصف نے انہیں ڈرانا چاہا –
"تو زندہ رہ کر کونسا ورلڈ ریکارڈ بنالوگے ” وہ دونوں بھی اپنے نام کے ایک تھے کوئی ان سے باتوں میں نہیں جیت سکتا تھا –
رفعت آرا کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی – جوانی میں ہی شوہر کا انتقال ہوچکا تھا – بڑے بیٹے سلطان کا ایک ہی بیٹا تھا نعمان جو بقول اس کے ابا نا کام کا نا کاج کا دشمن آرام کا تھا – اس کے بعد آتی ہے فرحت آرا جس کی شادی اپنے چچا کے بیٹے سے ہوئی تھی اور آۓ دن اس کی اور دیورانی کی لڑائی کی وجہ سے دونوں کے شوہروں نے گھر الگ کرلیے تھے – فرحت آرا کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھی – سب سے بڑی حرمت تھی – جس کی شادی اپنے پھپھو کے بیٹے سے ہوئ تھی – اس کے بعد تھا آصف جو اپنی چچا زاد گل بانو سے پیار کر تا تھا لیکن اس کی ماں اور چاچی دونوں ہی ان کے پیار کی دشمن بنی ہوی تھی – سب سے چھوٹی حناء تھی جس کا کام تھا دوسروں کی خبر رکھنا اور اسے آگے پہنچانا – اب باری آتی ہے عمران صاحب کی جن کا ایک بیٹا وصی اور ایک بیٹی حمنہ تھی –
فرحت آرا پچھلے ایک ہفتے میں ایک سو سے زیادہ لڑکیاں دیکھ چکی تھی اپنے بیٹے کے لیے لیکن کوئی لڑکی پسند ہی نہیں آرہی تھی – کیونکہ انھیں ایسی لڑکی چاہیے تھی جو خوبصورت بھی ہو اور ساتھ ڈھیر سارا جہیز بھی لاۓ – جہیز جو کہ ایک لعنت ہے آجکل ہمارے معاشرے میں ایک لازمی جز بن گیا ہے –
کیونکہ آج کے دور میں لڑکی کی سیرت نہیں اس کی حیثیت دیکھی جاتی ہے – دادی بھی پچھلے ایک ہفتے سے یہی تھی – وہ لوگ آج پھر کہیں جا رہے تھے ابھی نکلنے ہی والے تھے کہ آصف کے ساتھ نومی اور وصی کو آتے دیکھا –
"ماں صدقے !کتنے دنوں بعد میرے بچے آۓ ہے آؤ اندر آؤ” انہیں اپنے بھتیجوں سے بہت پیار تھا –
"لگتا ہے آپ کہیں جا رہی تھی ہم پھر چکر لگالیں گے ” نومی نے کہہ کر وصی کی طرف دیکھا – اس نے بھی سر ہلا کر تائید کی –
"ارے نہیں میرا جانا اتنا بھی ضروری نہیں تم دونوں اندر آو”-وہ انہیں اندر لے آئیں –
” اچھا یہ بتاو کھانے میں کیا بناؤں تم دونوں کے لیے ؟” پھپھو نے پیار سے پوچھا –
"ویسے تو تکلف کی ضرورت نہیں لیکن آپ اتنا اصرار کر رہی ہے تو اگر دیسی ککڑ کی بریانی ہوجاۓ تو مزہ آجاۓ گا – کیوں نومی تم کیا کہتے ہو ؟”وصی نے کہہ کر نومی کی طرف دیکھا
"بلکل یار میرا بھی بہت دنوں سے پھپھو کے ہاتھ کی بریانی کھانے کو دل کر رہا تھا ” نومی نے بھی لقمہ لگایا – آصف دونوں کو گھور کر رہ گیا –
"ٹھیک ہے تم لوگ باتیں کرو میں تم لوگوں کے کھانے کا بندوبست کرتی ہوں” – یہ کہہ کر وہ کچن میں چلی گئی- اور وہ دونوں آصف کی طرف دل جلانے والی مسکراہٹ سے دیکھنے لگے – جو انہیں ہی گھور رہا تھا –
"دادی گھر کب جانا ہے سب یاد کر رہے ہیں ” پھپھو کچن میں تھی وہ دونوں دادی کے قریب کھسک گۓ – نومی نے بات کا آغاز کیا –
"یہ فرحت آرا جانے دے گی تو جاؤگی – کوئی لڑکی اس کو پسند نہیں آتی اور مجھے بھی جانے نہیں دے رہی ” دادی کو تو جیسے موقع مل گیا –
"کیونکہ امی کی نزدیک کی نظر کمزور ہے اسلۓ ” آصف خود سے بولا لیکن آواز دادی کے کانوں تک پہنچ گئ –
"یہ تو کیا منہ میں بڑبڑا رہا ہے سب سمجھتی ہوں میں جو تم سوچ رہے ہو تیری ماں کبھی نہیں ہونے دے گی "دادی نے لگے ہاتھوں اس کی کلاس لی-
"آپ چھوڑے اس کو یہ تو ویسے ہی فضول بولتا رہتا ہے "وصی نے اسے گھور کر کہا – وہ بے چارا پہلو بدل کر رہ گیا –
"ویسے دادی میں نے اڑتے اڑتے ایک خبر سنی ہے "نومی نے دادی کو کہا
"کیا خبر سنی ہے ” دادی اس کی طرف متوجہ ہوئی –
"یہی کہ پڑوس والے اپنی بیٹی کی بات پکی کر رہے ہں – اور تو اور سلامی میں اپنے داماد کو گاڑی دینے والے ہے ” نومی نے دادی کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی –
"یہی نہیں میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ ہوسکتا ہے اپنا گھر بھی اس کے نام لکھوادے آخر اکلوتا داماد ہوگا ان کا ” وصی نے لوہا گرم دیکھ ایک اور چوٹ لگائی –
"تو مجھے کیوں بتارہے ہو ” دادی کو حیرت ہوئی –
"کیا دادی میں تو آپکو کافی عقل مند سمجھتا تھا لیکن آج پتا چلا سب خواتین ایک جیسی ہوتی ہیں "- اب کی بار نومی نے زبردست وار کیا جو ٹھیک نشانے پر لگا –
"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟”دادی اسے گھورتے ہوے بولی
"یہی کہ کیا آپ نہیں چاہتی کہ یہ سب آپ کے نواسے کو ملے آپ کو نہیں لگتا اس پر پہلا حق آصف کا ہے "- وصی نے انہیں سوچ میں ڈالا –
"بات تو تیری صحیح ہے لیکن تیری پھپھو مانے تب نا "دادی کچھ کچھ راضی ہونے لگی –
"یہ کیا بات ہوئی دادی لگتا ہے آپ بوڑھی ہوگئی ہں کیونکہ آپ پھپھو سے ڈر رہی ہے "نومی نے جوش دلائی – اور آصف کو وکٹری کا نشان دکھایا –
"ڈرتی تو میں تیرے مرحوم دادا سے بھی نہیں تھی اللہ بخشے انہیں – پھر یہ فرحت آرا کس کھیت کی مولی ہے – جا آصف بلا اپنی ماں کو ابھی جاتے ہں رشتہ لے کر "- دادی کو جلال آگیا – نومی اور وصی نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا. جانتے تھے اب پھپھو کی ایک نہیں چلنے والی تھی –
آج آصف اور گل بانو کی منگنی تھی – سب بہت خوش تھے – آصف کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا –
"یار یہ ہماری پھپھو کتنی چالاک ہے "- وہ دونوں چاۓ کے سا تھ ریفریشمنٹ سے پورا پورا انصاف کر رہے تھے – نومی نے اس کی توجہ پھپھو کی طرف دلائی –
"سچ میں یار جو کل تک اس رشتے کے خلاف تھی آج کتنی خوش ہے "- وصی نے بھی اس کی تائید کی –
"سچ میں یار اولاد کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا "نومی نے کہا – اور ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے کسی کو ڈھونڈرہا ہو –
"زیادہ آنکھیں مت نکال وہ نہیں آئی "- وصی نے اس کی چوری پکڑ لی –
"کون نہیں آئی کس کی بات کر رہا ہے تو "- نومی سٹپٹایا –
"تیری گلابو "- وصی جانتا تھا کہ وہ کتنا چڑتا ہے اس نام سے اسلۓ جان بوجھ کر یہ نام لیا –
"تجھ سے تو بعد میں نمٹ لوں گا چل پہلے اس آصف کی زرا خبر لیتے ہیں "- نومی نے دانت پیس کر کہا وہ بھی مسکرا کر اس کے ساتھ چلنے لگا –
"کیا حال ہے آصف خوش تو ہے نا "- وہ دونوں آصف کو گھیر کر بیٹھ گۓ –
"یار کیا بتاؤں کتنا خوش ہوں تم دونوں کی وجہ سے ہی یہ ہوا ہے "- آصف ان دونوں کا بہت شکر گزار تھا – جانتا تھا اس کے یہ دونوں کزن جتنا سب کو تنگ کرتے تھے اتنا ہی سب کی جان بستی تھی دونوں میں –
"تم دونوں یہاں ہو میں کب سے ڈھونڈ رہی تھی "- وہ باتیں کر رہے تھے اتنے میں پھپھو آگئ –
"کیا ہوا خیر تو ہے "- دونوں نے ایک ساتھ پوچھا –
"ہاں وہ میرے نند کی نند ہے نا اس سے ملوانا ہے تم دونوں کو "- اور وہ دونوں پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے –