قیمت ( افسانہ، از قلم : مہرالنسا مولوی )
اگلے دن وہ بنا کچھ کھائے گھر سے نکلا ۔شام تک شیرو کو ڈھونڈتا رہا ۔

"ان میں سے دس تگڑے بکرے قربانی کے لیے الگ کر کے ان کی خوب سیوا کرو۔” چوہدری فضل نے جیدے سے کہا۔ "جی ! چوہدری جی! بے فکر رہیں۔” وہ ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
"یہ کافی تگڑا بکرا ہے مجھے سب سے زیادہ پسند آیا ہے۔ سنا ہے پسندیدہ جانور کی قربانی کرنے سے زیادہ ثواب ملتا ہے۔” چوہدری نے کالے اور سفید بکرے کی جانب اشارہ کیا تو جیدا سر ہلا کر رہ گیا۔ اسے ان باتوں کی کہاں سمجھ تھی۔
حاجی فضل الٰہی کی زمینیں کئی ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھیں ۔ دھن تو ان پر بہت کھل کر برس رہا تھا ۔ پچھلے سال وہ حج بھی کر چکے تھے اور حاجی کا لقب پا چکے تھے ۔ اسم بامسمی کہنا زیادہ مناسب ہو گا ۔حج پر بیت اللہ پر وہ اللہ سے وعدہ کر کے آئے تھے کہ کسی کو نہیں ستائیں گے اور اپنا بہترین مال اللہ کی راہ میں دیں گے۔
جیدا اپنے کام نبٹا کر گھر آیا تو دروازے افسردہ کھڑے بیٹے کو دیکھ کر غمگین ہو گیا۔ وہ نیچے بیٹھا اور بیٹے کو بازوؤں میں بھینچ کر پیار کرنے لگا۔
"ابا! میرا شیرو ملا؟” وہ جس سوال سے ڈر رہا تھا وہی کر لیا گیا۔
"میں کوشش کر رہا ہوں نعیمے!” اس نے بیٹے کو تسلی دی۔
"ابا! اتنے دن ہو گئے۔ پتا نہیں اس نے کچھ کھایا بھی ہو گا کہ نہیں۔” نعیمے کی موٹی موٹی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
"اچھا چل اندر آ کل ڈھونڈ لاؤں گا۔”
"نہیں! میں خود ڈھونڈ لوں گا۔” اس نے ناراض ہو کر منہ پھلا لیا۔
اگلے دن وہ بنا کچھ کھائے گھر سے نکلا ۔شام تک شیرو کو ڈھونڈتا رہا ۔ واپس آ کر روتے روتے سو گیا ۔ ماں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کا ایک ہی سوال تھا ۔ ” میرا بکرا کہاں گیا؟“
اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ جانتی تھی چھوٹے سے میمنے سے بکرا بننے تک نعیمے نے اس کے کتنے ناز اٹھائے تھے۔
دوسرا دن بھی اسی طرح گزرا۔ سارا دن نیما شیرو کو گاؤں کی گلیوں میں ڈھونڈتا رہا۔
شام ہونے کو آئی تو وہ بھوک پیاس برداشت نہ کر سکا اور نڈھال ہو کر راستے میں ہی گر گیا ۔ پڑوسی نے اسے گرے دیکھ کر اٹھایا اور اس کے گھر لے آیا۔ پانی کے چھینٹے دے کر ہوش دلایا کچھ پانی حلق میں گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں لیکن ہوش میں آتے ہی شیرو شیرو پکارتا پھر سے بے ہوش ہو گیا۔
پڑوسی نے جیدے سے کہا ۔”ایسے تو یہ مر جاٸے گا۔ چوہدری جی سے بات کرو۔” جیدے نے گھبرا کر نعیمے کی طرف دیکھا جو آنکھیں کھولے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ جیدے نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا تو وہ خاموش رہا۔ ماں کھانا لائی نوالہ اس کے منہ میں ڈالا تو وہ غائب دماغی سے کھائے گیا۔ دونوں میاں بیوی نے خوشی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
"شکر ہے نسرین! نعیمے نے ضد چھوڑ دی۔” رات نعیمے کو سلا کر وہ بھی سونے کو لیٹے تو جیدے نے کہا۔
"ہاں! شاید سمجھ گیا کہ شیرو کبھی نہیں آئے گا۔” نسرین نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
اگلے دن صبح ان کی آنکھ کھلی تو نعیما بستر پر نہیں تھا چھوٹے سے گھر میں ہر طرف ڈھونڈ ڈالا لیکن وہ وہاں ہوتا تو ملتا۔
"نجانے میرا بچہ کہاں چلا گیا؟” نسرین نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔
"چپ کر جا نسرین! یہیں ہو گا آ جائے گا فکر نہ کر! میں دیکھتا ہوں پہلے ذرا ڈیرے سے ہو آؤں ورنہ چوہدری جی ناراض ہوں گے۔” جیدے نے کندھے پر چادر رکھی اور گھر سے نکل گیا۔
وہ ڈیرے پر پہنچا اور باڑے کا دروازا کھول کر اندر آ گیا۔ سامنے کا منظر دیکھا تو وہیں ساکت ہو گیا۔ "ابا! میں یہاں سے اچھا کھانا شیرو کو کھلا سکتا تھا تو اسے یہاں کیوں لایا؟” نعیمے نے خفگی سے کہا۔
"پیسے والوں کو کوئی چیز پسند آ جائے تو وہ اسے ہر قیمت پر حاصل کر لیتے ہیں۔” چل آ گھر چلیں۔
"ابا! تو نے میرا بکرا کیوں بیچا؟” وہ اس کا بازو تھامے گھر کی جانب جا رہا تھا اور نعیما سارا راستہ اس سے یہی سوال کرتا رہا۔ وہ چپ رہا کیا بتاتا کہ اگر بکرے کو بچاتا تو فاقے اور در بدر کی ٹھوکریں مقدر ٹھہرتیں۔
چوہدری نے عید والے دن پانچ بکرے قربان کیے اور گوشت غریبوں میں تقسیم کر دیا۔ وہ خوش تھا کہ اس بار پاکیزہ مال سے قربانی کی تھی۔
نسرین نے گوشت سے بھری پلیٹ نعیمے کے سامنے رکھی تو وہ بلک بلک کر رو دیا۔
چوہدری فضل نے ڈونگے سے گوشت پلیٹ میں نکالا اور خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ ملازم کھانے کے بعد حقہ تازہ کر کے لایا تو اس نے جیدے کو بلوایا۔
” کل باقی کے بکروں کی قربانی کا انتظام صبح سویرے کر لینا۔ گوشت مزید چاہیے ہو تو لے جانا۔” چوہدری نے فضا میں حقے کا دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔
"جی چوہدری جی!” اس نے سر ہلایا۔
"تمہارا بیٹا اب کیسا ہے؟”
"جی! بہتر ہے اب!”
"عید کے کپڑے اور جوتے تو دلائے تھے نا۔”
"جی!” جیدے نے ہولے سے کہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے صبح والا منظر گھوم گیا۔ "مجھے نہیں پہننے کپڑے اور جوتے ۔” نعیمے نے استری شدہ کپڑے اٹھا کر نیچے پھینک دیے تھے اور جیدے نے اسے مکوں سے دھنک ڈالا تھا۔
"چلو ٹھیک ہے اب تم جاؤ۔ صبح جلدی آ جانا۔” چوہدری نے حکم دیا اور اپنی خواب گاہ کی طرف چلا گیا۔
نعیما بکرے پر سوار مسکراتا ہوا جا رہا تھا۔
"ارے اس کی قربانی تو میں نے کی تھی لیکن یہ کیسے۔” وہ بڑبڑایا۔
"تم نے ظلم کیا ہے۔” آواز آئی۔
"نہیں! نہیں! میں نے قیمت ادا کی ہے وہ چلانے لگا۔
” مجبوری کی قیمت؟” آواز پھر سے آئی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
اس کی آنکھ کھلی تو سارا جسم پسینے میں شرابور تھا۔