ملال ( افسانہ ، تحریر : آمنہ مختار )
اخناف کھڑکی کے پاس کھڑا تھا اور زندگی کی بیتے لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

احناف سمندر کے کنارے کھڑا ڈھلتے سورج کو دیکھ رہا تھا۔جس طرح سورج اپنے آخری مراحل میں تھا ویسے ہی اسے اپنا وجود بھی مانند پڑتا دکھائی دے رہا تھا ۔ سمندر کی اٹھتی موجیں دیکھ کر اس کے اندر ٹھاٹھے مارتا شور اسے احساس دلاتا تھا وہ حیات کو ہمیشہ کے لیے کھو چکا ہے۔
حیات غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی ۔حیات کے والد کی چھوٹی کریانے والی دوکان تھی۔جس سے ان کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔حیات اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ۔والدین نے بہت ناز و نخرے کے ساتھ پالا تھا۔ وسائل کم ہونے کی وجہ سے اس کے والدین زیادہ نا پڑھا سکے۔حیات کے پڑھنے کا خواب ادھورا ہی رہ گیا تھا۔حیات کی والدہ نے اپنی بیٹی کی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ہر والدین کی طرح حیات کے والدین کا بھی یہی خواب تھا کہ ہماری بیٹی جلد ہی اپنے گھر کی ہو جائے۔وہاں خوش گوار زندگی گزارئے۔
آہ کاش والدین کو اپنی بیٹی کے نصیب کا پتا ہوتا۔
ان کی بیٹی کو خوشیاں نہیں ملنے والی اس کے مقدر میں اذیت سہنا ہی مقرر کر دی گئ ہے جس کو سہتے سہتے وہ موت تک جا پہنچے گئ۔
اخناف کھڑکی کے پاس کھڑا تھا اور زندگی کی بیتے لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جب تیز ہوا کے جھونکے کے ساتھ زارو قطار بارش شروع ہونے لگ گئ تھی۔ پہلے جب بارش برستی تھی الگ ہی چمک اس کے چہرے پر ہوا کرتی تھی۔
اخناف میری بات سنو،مجھے بارش سے بہت ڈر لگتا بجلی بھی بہت تیز چمک رہی ہے، پلیز مجھے ادھر اکیلا مت چھوڑو ،میراکوئی قصور نہیں،میرے ساتھ ایسا مت کروں،میں مر جاؤ گئ۔اخناف مرتی ہو تو مر جاؤ مجھے آج یوں تمہں تکلیف میں دیکھ کر مزہ آرہا۔میرا بھی کوئی نہیں تھا سننے والا میں بھی اکیلا ہی تڑپتارہا ہوں۔اچانک بارش رک گئ تو اخناف خیالوں سے باہر نکلا۔ آج اسے اس بارش سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔اخناف کھڑکی بند کرکے نیچے ہی بیٹھتا چلا گیا اور پچھتانے لگ گیا۔ یہ اذیت اور پچھتاوا اب اس کے لئے زندگی بھر کے لئے مقدر بن گیا تھا۔
اخناف کے والد شہر کے بہت بڑے بزنس مین تھے اس کی ماما بھی آفس میں مینجر تھی۔اخناف ہی آنکھوں کا تارا تھا۔ان کی اکلوتی اولاد،ان کی جائیداد کا اکلوتا وارث،
اس کے والدین نے کبھی بجا روک ٹوک نہیں کی اگر کوئی غلطی کر بھی دے تو پیار سے سمجھاتے تھے۔اخناف کی ہر خواہش پوری کی تھی کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، جس کی وجہ سے اخناف ہر بات بلاجھجک اپنے والدین سے شئیر کرتا تھا۔جس سے اخناف کے والدین کو اپنے بیٹے پر فخر محسوس ہوتا تھا۔
اخناف کے بابا اپنے کافی پرانے دوست (احمد) جو انکو سگے بھائی سے بھی زیادہ عزیز تھا ۔ اس سے ملنے گئے تھے ۔ وقت کی تیزی اور مصروفیت کے باعث چند مہینوں کے بعد ملاقات کررہے تھے۔
دونوں کی آپس میں بہت ہی گہری دوستی تھی،دوستی گہری ہوتی بھی کیوں نہ دونوں کا بچپن کا ساتھ تھا۔بچپن کے ساتھی بہت وفادار ہوتے ہیں جن کے بچپن کے ساتھی اک دوسرے کے ساتھ ہو وہ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں۔اور یہ دونوں دوست ہی بہت خوش قسمت تھے ان کی زندگی میں کسی اور کی گنجائش ہی نہیں تھی۔لیکن کسی کو ان کی دوستی اک آنکھ نہیں تھی بھاتی اور دشمن بس موقع کے اڑ میں تھا۔کب اس کو موقع ملے اور وہ اپنی چال میں کامیاب ہو۔
یار تم نے اتنے دنوں بعد چکر لگایا ،مجھے تو لگا بھول ہی گئے ہو ، اخناف کے بابا نے کہا،نہیں یار ایسی بات نہیں تم تو مجھے ہمیشہ یاد رہتے ہو اور اپنوں کو نہیں بھولا جاتا ۔جو اپنے ہوتے ،وہ ہمیشہ دل کے قریب رہتے ہیں ۔ملاقتیں نہ بھی ہو،پھر بھی حسین یادیں انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی،اگر یادیں اچھی ہو تو انسان ان کو یاد کر کے خوشی محسوس کرنے لگتا،یادیں بری ہو تو وہی ہمارے لئے عذاب بن جاتی ہیں،
یادیں بری ہو یا اچھی انسان کہی بھی چلا جائیں یہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔
آئندہ ایسے مت کہنا میں تمہیں بھول گیا ہوں،بس کچھ مصروفیات بہت زیادہ،خوشی کے لمحے میں سب سے پہلے تمہیں یاد کرتا ہوں،اک پروجیکٹ حاصل کرنے کے لیے بہت عرصے سے کام کر رہا تھا دعا کرنا، احمد آج میں کامیاب ہو جاؤں۔
احمد نے جب یہ سنا اور خوشی سے جھوم اٹھا اور اپنے دوست کو مبارک باد دی۔اور کہا ان شاءاللہ تم ضرور کامیاب ہو گئے۔آمین،یہ کہہ کر اٹھ گیا اور کہا کہ ہم اک ساتھ ڈنر کریں گے،اپنی زندگی کے بیتے لمحات کو تازہ کرےگے ،احمد
نے کہا میں تمھارا انتظار کروں گا۔
بعض اوقات انسان اپنی زندگی کے آنے والے کل کی بھی پلاننگ کر لیتا،
لیکن اسے یہ خیال نہیں آتا ،ایا وہ کس حالات میں ہو گا زندہ بھی رہے گا یا نہیں؟؟
اخناف بابا آپ کہی جا رہے ہے،جئ بیٹا آج بہت اہم پروجیکٹ ملنا ہمیں بہت محنت کی ہم نے،میں اور آپ کے ماما جلد ہی آجائے گئے،پھر ساتھ ڈنر کرئے گئے۔اخناف بابا آپ ہر دفعہ ہی لیٹ آتے ہے آپ ہمیشہ یہی کہتے ہیں ہم جلد ہی گھر آئے گے،نہیں بیٹا اس دفعہ میں اپنے بیٹا سے وعدہ کرتا ہوں ٹائم پر ہم آئے گے،ہمارا بیٹا انتظار کرئے اور ہم نہ آئے ایسا کیسے ہو سکتا،بیٹا تم ہمارے گھر کی رونق ہو جب تم گھر نہیں ہوتے،تو یہ گھر ویران سا لگتا،جب تک ہم بھی اپنے بیٹے کو نہ دیکھ لیں سکون نہیں ملتا،بس یہ مجبوریاں ہی ہوتی بیٹا جو انسان کو اپنوں سے جدا کرتی ہے،
بابا ساری دنیا سے زیادہ پیار میں آپ سے کرتا ہوں کبھی بھی مجھ سے دور نہ جانا آپ کے سوا میرا اس دنیا میں کوئی نہیں،بابا آپ جلدی آجانا اور اپنا اس دفعہ کیا ہوا وعدہ نہیں بولنا،اوکے بیٹا اللّٰہ خافظ!!…اخناف کے والدین کو جب پروجیکٹ مل گیا وہ بہت خوش ہوئے مسکراہٹ جدا ہی نہیں تھی ہو رہی ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔سب سے مبارک باد وصول کر کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے تھے،اور کچھ مصنوعی مسکراہٹ سجا کر بس دکھاوا کر رہےتھے وہ بہت خوش،لیکن ان کے اندر اک آگ لگی تھی، سب کچھ ختم کرنے کی ،جو کھیل انہوں نے کھیلنا تھا۔اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا،تھوڑی دیر بعد ان پر کونسی قیامت آنے والی تھی، سب اپنی زندگی کی خوشیوں میں مگن تھے۔
اخناف موبائل پر مگن تھا باہر سے لوگوں کی رونے کی آوازیں آئی، اخناف فوراً باہر کی طرف بھاگا،اپنے گھر کے سامنے ایمبولینس کو دیکھ کر اس کے رنگ اڑ گئے،ایمبولینس سے اپنی والدین کی ڈید بادی کو نکلتا دیکھ کر اونچی آواز سے رونا شروع کر دیا، ان کے گھر لوگوں کا ہجوم تھا،وہ اردگرد سے بیگانہ ہو کر اپنے والدین کے پاس بیٹھ کر روئے جا رہا تھا،بابا آپ دونوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے،آپکے سوا میرا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا،آپ نے بھری دنیا میں مجھے تنہا کر دیا،بیٹا جنازہ کا وقت ہو گیا پیچھے ہو جاؤ،چاچو بابا کو بولئے نہ اٹھ جائے میرا ساتھ ایسا نہ کرئے،بس بیٹا صبر کروں یہی خدا کو منظور تھا،تم اپنے والدین کی مغفرت کے لئے دعا کروں،اب رونا مت ان کو تکلیف ہو گئ،اخناف کو آج شدت سے احساس ہوا تھا کسی اپنے کو کھو دینا کتنا مشکل ہوتا،پھر اپنے ہاتھوں قبر میں دفنانا،ابھی تو اس کی زندگی کا امتحان باقی تھا،جب اس نے دوبارہ اس قرب سے گزرنا تھا۔
اخناف کو اپنے بابا کا بزنس جوائن کئے ہوئے پانچ مہینے ہو گئے تھے، اسی دوران اس کی حیات سے ملاقات ہوئی پارک میں ،حیات کو دیکھتے ہی بنا پلکے جھپکے اسی کو دیکھتا رہا ،حیات بلیک کلر کا حجاب کئے بنا میک اپ کے بہت پیاری لگ رہی تھی،حیات بہت خوبصورت سنہری آنکھیں اور بلیک حجاب اس پر بہت ہی جچتا تھا ،حیات ہیلو مسٹر اس سے پہلے خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی،آہاں اس سے پہلے خوبصورت لڑکی دیکھی نہیں ،اس لئے تمہیں ہی جی بھر کر دیکھ رہا ہوں،پھر روزانہ ان کی ملاقات ہونے لگی،اخناف نے اپنے دل کی بات کہہ دی ،ان کی دوستی ہو گئ،،
اک دن حیات اپنے بابا کے ساتھ پارک آئی ،حیات نے اخناف کے بارے اپنے بابا کو بتایا،،،،اخناف کو کوئی ہوش نہیں تھا بس اس کے کانوں میں آوازیں گونج رہی تھی اپنے چاچو کی، بیٹا تمھارے والدین کا ایکسیڈینٹ ہوا نہیں تھا،کسی نے کروایا،کیا مطلب چاچو میرے بابا کی کسی سے دشمنی بھی نہیں تھی اور کس نے کروایا؟بیٹا یہ تمھارے بابا کے دوست ہے انہوں نے ایکسیڈینٹ کروایا،چاچو وہ ایسا کیوں کریں گے؟
بیٹا یہ جو پیسا ہوتا اس کی وجہ سے لوگ اپنوں کے ہی دشمن بن جاتے،زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کی اور ان کا دوست حسد کرتا اپنے دوست کو زیادہ امیر دیکھ کر،اخناف نے اس دن سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تھا
اخناف بڑے ضبط سے ان کے سامنے کھڑا تھا،اخناف کہاں کھو گئے ہوں،کہی نہیں میں اک بات سوچ رہا تھا ،انکل میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں،بیٹا یہ کام بڑوں کے ہوتے ہیں،والدین رشتہ لے کر آتے ہیں،ہم نے بھی کوئی چھان بین کرنی ہوتی ہے،انکل میرے والدین اس دنیا میں نہیں رہے میں اکیلا ہوں۔یہ سن کر حیات کے والد بہت افسردہ ہوئے اور کہا بیٹا میں فون پہ بتا دوں گا۔
حیات کے بابا نے گھر جا کر سوچ و بچار کج اور اپنی بیٹی کی پسند کو مد نظر رکھ کر ہاں کر دی۔
اخناف بڑی مشکل سے گھر پہنچا،اک طرف اس کی اپنی محبت اور اس کا باپ اس کی خوشیوں کا قاتل نکلا،میں بدلہ ضرور لوں گا،
انہی سوچوں میں گم تھا اور موبائل کی آواز نے جہاں اسے اپنی طرف متوجہ کیا،بیٹا ہمیں رشتہ منظور ہے،اک مہینے بعد نکاخ کی رسم کریں گے،انکل میں سادگی سے نکاخ کرنا چاہتا ہوں کہ ، اس وجہ سے دو دن بعد تھیک ہے بیٹا ہم نے اپنی بھی تیاری کرنی،انکل کچھ نہیں لینا بس کل ہی نکاخ ہو گا ،اوکے بیٹا جیسے تمھاری مرضی اللّٰہ خافظ!
اخناف کال کٹ ہوتے ہی پاگلوں کی طرح ہنسنے لگ گیا،کہا سسر جی سمجھے اب کھیل شروع ہو گیا،،،
کچھ ہی دن بعد نکاخ ہو گیا ہر طرف مبارک باد کی آوازیں گونج رہی تھی،انکل ہمیں اجازت دیں جانے کی،حیات کے والدین نے اخناف کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ دیا اور کہا،
"میں نے اپنی بیٹی کو پھول کی طرح رکھا۔
اور یہ پھول اب تمھارے گھر کی زینت ہے۔
اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے معاف کرنا،اس کا خیال رکھنا۔انکل آپ بے فکر ہو جائے آپ سے بھی زیادہ میں خیال رکھوں گا۔
حیات اپنے گھر والوں سے مل کر اک نئے سفر کی طرف روانہ ہو گئ جہاں اذیت ہی اذیت اس نے سہنی تھی،
گاڑی اپنے منزل کی طرف رواں دواں تھی،اک جھٹکے سے گاڑی روکی اور حیات کا سر دروازہ کے ساتھ لگا جس سے حیات کراہ اٹھی،اخناف پرواہ کئے بغیر اندر چل گیا۔حیات بھی اس کے پیچھے پیچھے اندر چلی گئ،اخناف میری بات سنو،حیات میرے راستے سے ہٹو میں باہر جا رہا ہوں ،
اخناف تمہیں کیا ہوا ابھی تم باہر نہ جاؤ بارش شروع ہونے والی مجھے ڈر لگتا،یہ سنتے ہی اخناف کی چہرے پر پرسرار سی مسکراہٹ آئی ،حیات کو گھیسٹا اور بارش کے نیچے کھڑا کر دیا، اخناف مجھے بارش سے بہت ڈر لگتا تم ایسا کیوں کر رہے ہو، مجھے بھی تمہیں ایسا دیکھ کر بہت سکون مل رہا جا کر اپنے باپ سے پوچھو جس نے میرے باپ کا ایکسیڈینٹ کروایا،جس کی وجہ سے میں اس دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا،اخناف تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میرے بابا نے ایسا کچھ نہیں کیا تمہیں کسی نے میرے بابا کے خلاف کیا،جب میرے بابا کی بے گناہی کا تمہیں پتا چلے گا تم پچھتاؤ گئے،اور یاد رکھنا جب تم پر خقیقت کھولے گئ تب میں تم سے بہت دور چلی گئ ہوں گئ ،
اخناف بن کچھ کہے اوپر چلا گیا، جب حیات نے اسے اوپر جاتے دیکھا، پھر وہاں ہی نیچے گرتی چلی گئ، سوچ رہی تھی قسمت نے مجھے کہاں کھڑا کر دیا ، اخناف سے آج اسے نفرت محسوس ہو رہی تھی، جس نے بنا جانے اتنا بڑا الزام لگا دیا تھا۔
اخناف جب اوپر آیا بے چینی کے ساتھ بیٹھا رہا تھوڑی دیر بعد نیچے گیا،حیات اردگرد سے بیگانہ بے ہوش تھی،اخناف جلد ہی ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا،
ڈاکٹر میری بیوی کیسی،وہ آپ کو اپنے پاس بلا رہی رہی ہے،اخناف جیسے ہی اندر داخل ہوا حیات کو دیکھ کر بس کچھ ہی لمحے، شرمندگی نے ان گھیرا۔پھر وہی نفرت اور آنکھوں میں حقارت لئے بولا اتنی جلدی تمہیں مرنے نہیں دوں گا،اخناف تم نے تو اپنی دو دن بھی اپنی محبت نہیں نبھائی،دوستی کا مان ہی رکھ لیتے،تمہیں کیسے میری باتیں سمجھ آئے گئ،میری دعا جب تم ہر خقیقت شکار ہو تب میں تمہیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملو،حیات ابھی کہہ رہی تھی کچھ اور بھی اس کا سانس اکھڑنے لگا، ڈاکٹر جلدی بھاگ کر آئے چیک کر کے کہا، شی از نو مور.
اخناف جب بھی گھر آتا اسے آوازیں سنائی دیتی تھی میں بے قصور ہوں،میں مر جاؤ گئ ،ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اس نے کچھ ماہ امریکہ جانے کا پلین کیا تھا، جانے سے پہلے اپنے چاچو سے ملنے گیا اسی دوران جو اس نے باتیں سنی اسے یقین ہی نہیں تھا آرہا اچانک کسی چیز کی گرنے پر اس کے چاچو نے پیچھے مڑ کر دیکھا اخناف کھڑا تھا ،
چاچو آپ نے میرا ساتھ یہ کھیل کھیلا مجھے استمعال کیا جھوٹ بولا میرے بابا کا ایکسیڈینٹ آپ نے کروایا الزام ان کے دوست پر لگایا،آپ کی وجہ سے میری زندگی تباہ ہو گئ آپ نے کیوں کیا ایسا؟ہاں میں نے یہ سب کیا تمھارے باپ کی پاس بہت دولت تھی مجھے ان دونوں کی دوستی پسند نہیں تھی یہ کھیل میں نے کھیلا آج تمھارے پاس کچھ نہیں بچا۔
اخناف نے حیات کے والدین کو بتا دیا اس کے والدین پہلے ہی بیٹی کے غم کی وجہ سے بوڑھے ہو گئے،اج اک اور انکشاف سن کر ان پر سکتہ طاری ہو گیا،جس کو میں نے اپنی پھولوں جیسی بیٹی دی جس نے اس کی عزت نہ کی وہ میرے دوست کا بیٹا،انکل مجھے جو سزا چاھے آپ دے سکتے ہیں،بیٹا تمہیں سزا دینے سے میری بیٹی واپس نہیں آجائیں گی تمہں معاف کیا۔۔
اخناف کا روز کا معمول بن گیا تھا آفس سے واپسی پر قبر چلے جانا اور ادھر سے پارک ہر جہاں اس کی پہلی ملاقات ہوئی تھی”اور کسی کے بچھڑنے کا دکھ حیسن یادوں کو دل ہر لگا عذاب بن جاتا جو وقت گزرنے کے ساتھ ناسور بن جاتا ہے اور ناسور کوئی مسیحا نہیں بھر سکتا وقت بھی نہیں”
اب اس کے پاس کچھ رہا ہی نہیں اپنوں کے چہرے سامنے آئے کتنی سفاکی کے ساتھ جھوٹ بولے اور خود اپنی زندگی میں مگن ہوگئے،دوسروں کی خوشیاں تباہ کر دی، اخناف روز شام کو تھک ہار کر خالی ہاتھ گھر لوٹ آتا۔