کاش (اردو افسانہ، تحریر: صائمہ نذیر، نوشہرہ)

نہیں سجاد آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک میں نہیں چاہوں گی ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا.

ضلع اٹک کے مضافات میں صبح کی اذان کا وقت ہو چکا تھا. شکر درا کی تنگ و تاریک گلیوں میں صبح نو کی نوید سنائی جا چکی تھی جہاں سب لوگ تاریکی سے نکلنے اور روشن صبح میں قدم رکھنے کی تیاریوں میں مصروف عمل تھے وہاں نائمہ اپنے تر بالوں کو تولیے سے خشک کرنے اور غزالی آنکھوں کو اشکوں سے تر کرنے میں مگن تھی۔

نائمہ اور سجاد پچھلے پانچ سالوں سے رشتہ ازدواج میں باہمی خوشی و رضا مندی سے منسلک ہوئے تھے. آج ان کی شادی کی پانچویں سالگرہ تھی جو نائمہ اپنے آنسووں سے منا رہی تھی اور سجاد بہت پیار سے سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا.

"دیکھو نائمہ میری جان یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں اور نا کوئی انہونی ہوئی تمھارے ساتھ جس پہ تم یوں ری ایکٹ کر رہی ہو. یہ تو ایک نہ ایک دن ہونا تھا پھر اب ہو یا تب کیا فرق پڑتا ہے ؟ اچھا دیکھو میری بات سنو ۔۔۔۔۔۔”

نہیں سجاد آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک میں نہیں چاہوں گی ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا. نائمہ نے سجاد کی بات کاٹ کر یک دم چلا کر کہا.

نائمہ نائمہ وہ بات الگ تھی اب مجھے تمھاری خوشی کے ساتھ ساتھ امی جان کی خوشیوں کا بھی خیال رکھنا ہے اور میں چاہتا ہوں اب تم میرا ساتھ دو اور مجھے یقین ہے تم میرا ساتھ دوگی تم میرا مان ہو یار !

سجاد نے ہر طرح سے نائمہ کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن نائمہ نے تو جیسے نا سمجھنے کی قسم کھا رکھی تھی۔

سجاد زبیدہ خاتون کی اکلوتی اولاد تھا اور اس کی خواہش تھی کہ جیتے جی وہ گھر میں سجاد کی بچوں کی کلکاریاں سنیں۔ زبیدہ خاتون پچھلے تین سالوں سے دل کے عارضے میں مبتلا تھیں اور ڈاکٹرز نے ہر طرح کی پریشانی سے دور رہنے کی سختی سے تلقین کی تھی۔ اب سجاد بھی یہی چاہتا تھا کہ گھر کا سونا آنگن اب بچوں کی شرارتوں سے کھل اٹھے اور جب وہ تھکا ہارا دفتر سے گھر لوٹے تو روتے ہنستے ننھے منے بچے اس کا استقبال کریں بابا بابا کہہ کے دور سے بھاگتے ہوئے آئیں اور پاوں سے لپٹ کر باہر جانے کی ضد کریں.

دوسری طرف نائمہ تھی جو ابھی یہ سب کرنے کے موڈ میں نہیں تھی. وہ چاہتی تھی کہ پہلے اس کی پڑھائی مکمل ہو جو شادی کے بعد بھی جاری و ساری تھی. اس کے بعد اپنے کیرئیر پہ فوکس کرے. تب کہیں جا کر وہ اس سب کے بارے میں سوچے. جب کہ زبیدہ خاتون کے پاس اتنے طویل انتظار کا وقت نہیں تھا۔

نائمہ کی طبعیت اج صبح سے ہی کچھ بوجھل سی ہو رہی تھی. آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہوا تھا اور آسمان تو جیسے اس کے گرد طواف کررہا تھا. ہر چیز سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس ہو رہی تھی.گھر کے کام کاج میں بھی دل نہیں لگ رہا اور اوپر سے یہ متلی بھی پتا نہیں میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے.

ابھی وہ یہ سب ثمن کو فون پر بتا ہی رہی تھی کہ ایک دم سے زمین پر کر گر بے ہوش ہو گئی. زبیدہ خاتون نے جلدی سے ڈاکٹر کو فون کیا اور ڈاکٹر صاحبہ ان کے گھر خوش خبری کا فرشتہ بن کر نازل ہوئیں۔ جہاں یہ خوشی کی خبر سن کر زبیدہ خاتون اور سجاد پھولے نہیں سما رہے تھے کہ عنقریب ان کے ہاں ایک ننھے مہمان کی آمد متوقع ہے وہاں نائمہ کو جیسے کسی نے قیامت کی خبر سنا دی.

نائمہ کے دماغ پر ایک ہی بات سوار تھی. تعلیم اور کیرئیر اس کے خیال میں سجاد اس کے پاوں میں یوں بچوں کی بیڑیاں ڈال کر اسے ہمیشہ ہمیشہ گھر بٹھا کر اس سے گھر داری کرائیں گے. وہ چاہتے ہی نہیں کہ میں اپنے پاوں پہ کھڑی ہوں اور اپنی تعلیم مکمل کر کے ان کے شانے بہ شانے کھڑی ہوں. ان باتوں کا ذکر نائمہ نے اپنی بچپن کی دوست ثمن سے بھی کیا جو نائمہ کی منفی سوچ سے بخوبی واقف تھی۔

ثمن نے بھی نائمہ کو بہت سمجھایا کہ سجاد بھائی ایسے بالکل بھی نہیں ہیں وہ ایک روشن خیال سلجھے ہوئے بہت محبت کرنے والے اور خیال رکھنے والے جیون ساتھی ہیں جنہوں نے آج دن تک تمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی. اللہ کا دیا سب کچھ تو ہے تمھارے پاس اپنا گھر اپنا کاروبار لاکھوں کی آمدن اور کیا چاہیے ایک اولاد کی کمی تھی وہ بھی ماشاء اللہ پوری ہونے جا رہی. پھر یہ سب سوچ کر تم نہ صرف سجاد بھائی کے خلوص پہ شک کر رہی بلکہ اپنی صحت بھی خراب کر رہی جس کا اب تمہیں پہلے سے زیادہ خیال رکھنا ہے. اپنے لیے نہ سہی اس معصوم بچے کے لیے جو ہمارے پیٹ میں پل رہا۔ تم خود ٹھنڈے دل سے سوچو اگر تم سجاد بھائی کو عزیز نہ ہوتی انہیں تم سے محبت نہ ہوتی تو کیا پانچ سال وہ یوں تمھارا انتظار کرتا ؟ یہ تو زبیدہ خاتون کی محبت اور بڑا پن ہے جو بیٹے کو دوسرا راستہ نہیں دکھایا اور تم اس سب کے باوجود ان پر بھی شک کر رہی ہو۔ افسوس!

اتنا سمجھانے کے بعد بھی نائمہ نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ وہ کچھ بھی کرلے گی لیکن اس بچے کو جنم نہیں دے گی جو بعد میں اس کے راستے میں رکاوٹ بنے۔

اس بات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ اپنی صحت کے بر خلاف ادویات کا استعمال کرنے لگی اسے اس بات کی بھی پراہ نہیں تھی کہ نیچے کانٹے بچھے ہوئے ہیں اور میں ننگے پاوں ہوں۔

آخر خدا خدا کر کے وہ دن بھی آن پہنچا جس کا سجاد اور زبیدہ خاتون کو شدت سے انتظار تھا آج نائمہ کی ڈیلوری متوقع تھی جس میں کافی زیادہ پیچیدگیوں کا سامنا تھا ڈاکٹرز اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے تھے زبیدہ خاتون اور سجاد رب کے آگے سجدہ ریز ہو کر ماں بچے کی خیر کی دعائیں مانگ رہے تھے۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر خلیل ایک ناخوشگوار خبر کے سامنے سجاد کے سامنے موجود تھے:

"سوری سجاد صاحب ہم بچے کو نہیں بچا سکے، مزید یہ کہ آپ کی زوجہ اب کبھی ماں نہیں بن سکے گی.”

یہ سن کر جہاں سجاد نے دیوار کا سہارا لیا وہاں زبیدہ خاتون بیٹے کی بربادی کا سن کر تاب نہ لا سکی اور دنیا فانی سے کوچ کر گئی۔ نائمہ کے لیے بھی یہ خبر ،خبر نہیں بلکہ گرم سیسہ تھا جو اس کے کانوں میں انڈیلا گیا تھا یہ خبر سن کر اس کے قدموں سے تو جیسے کسی نے زمین کھینچ لی ہو وہ گم سم بیٹھی زبیدہ خاتون کے بے جان جسم اور سجاد کی ویران انکھوں کو تکے جا رہی اس کی خاموش لبوں کی دل خراش چیخیں آسمان سے ٹکرا رہی تھی.

اس کو ایک ہی غم کھایا جا رہا تھا کہ وہ نا صرف ایک قاتلہ ہے بلکہ اپنے ہی بچے کی جان لینی والی ڈائن بھی جس نے خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی کوکھ اجاڑ دی ہوئی. کوئی ایسی ماں جو خود اپنے بچے کی قبر اپنے ہاتھوں سے اس وقت بنائے گی جب وہ اس دنیا میں آیا بھی نہ ہو. وہ چپ چاپ ایک ہی نقطے پہ سوچے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔

"کاش میں ایسا نہ کرتی کاش میں ایسا نہ کرتی۔”

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.