گزرا ہوا کل اور آج (اردو افسانہ، تحریر : مومنہ شکیل کھٹڑ کھولیاں بالا ہر پور)

وہ کئی گھنٹوں سے بیڈ روم کی کھڑکی کھولے کھڑی رہی.

آج کا دن اس کی زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا . وہ عروسی لباس میں حجلہ عروسی پر شفیق کی دلہن بنے آج پورے حق کے ساتھ اس کے گھر میں بیٹھی اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی تصور کر رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی . سفید شیروانی میں ملبوس شفیق مردانہ وجاہت کے ساتھ دروازہ کھول کر اندر آیا .

"اسلام علیکم” . دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے کہا .

اقراء نے دل ہی دل میں جواب دیا مگر اس کی دھڑکنیں تهیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں . وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گیا .

"آج میری زندگی کا خوبصورت ترین دن ہے. میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا ہوں.” جو جذبات اقراء محسوس کر رہی تھی ، شفیق نے ان کا اظہار کر دیا. اس نے اقراء کا ہاتھ پکڑا اور منہ دکھائی میں ایک انگوٹھی پہنائی. وہ غور سے انگوٹھی کو دیکھنے لگی.

"ماما ماما ماما” . وہ محمد کی آواز پر چونکی. آٹھ سال پہلے کی باتیں یاد کرتے ہوئے اس کے آنسو بہہ نکلے .

"جی بیٹے” . وہ آنسو صاف کرتے ہوئے نرم لہجے میں بولی .

"ماما بھوک لگی ہے . مجھے کچھ کھانے کے لیے دیں.” چھ سال کا معصوم یتیم بچہ ماں کی آغوش میں آگیا .

"ابھی دیتی ہوں اپنے پیارے بیٹے کو.” اس نے محمد کو پیار کرتے ہوئے گلے سے لگایا ، پھر کچن چلی گئی . شفیق اور اقراء آپس میں چچا زاد کزنز تھے . ان کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی . ان دونوں کی پسند کی شادی تھی . بے شک شادی سے پہلے دونوں کا میل جول سلام دعا کی حد تک تھا . مگر دل پہ کس کا اختیار تھا . آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی . دو سال بعد اللہ نے انہیں اولاد نرینہ سے نوازا ، جس کا نام انہوں نے محمد عثمان رکھا . مگر سب پیار سے محمد ہی کہا کرتے تھے . محمد جب دو سال کا ہوگیا تو اللہ نے انہیں انیزہ نامی پھول سی بیٹی عطا کی .

♡————-♡————-♡————-♡————–♡————♡

ہزاروں منزلیں آئیں
بہاریں آ کے کھو جائیں
میرا چہرہ بھلا دینا
میری یادیں بچا لینا
جو لمحے آس دیتے ہوں
انہیں دل سے لگا لینا
جو لمحے درد دیتے ہوں
انہیں دل سے بھلا دینا
بہت دور رہ لینا
بہت مجبور رہ لینا
مگر اس دوری کو تم
بہانہ مت بنا لینا
سنو!
مجھے تم چھوڑ مت دینا
مجھے تم چھوڑ مت دینا…….!

تاروں بھری رات بہت سیاہ تھی . چار سو ہو کا عالم تھا . اس خاموشی میں کبھی کسی کے بھونکنے کی آواز ارتعاش پیدا کر دیتی تھی. وہ کئی گھنٹوں سے بیڈ روم کی کھڑکی کھولے کھڑی رہی. ایک نظر پیچھے بیڈ پر سوئے بچوں پر بھی ڈال لیتی تھی . دل کا غم حد سے سوا تھا . بہت کوشش اور خواہش کے باوجود بھی وہ خود کو شفیق کے خیالوں سے چھٹکارا نہیں دلا سکی . اس کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا. آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے .

"یا اللہ میری مشکل آسان کر. یا اللہ جتنی مجھ میں ہمت ہے ، مجھ پر اتنا بوجھ ڈال . اے اللہ ! تو تو جانتا ہے کہ عورتیں کتنی کمزور ہوتی ہیں . چیونٹی تک سے ڈر جاتی ہیں. تو اپنا کرم فرما. رحم فرما میرے مالک . رحم فرما. آمین.”

اس نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی . وہ اس حالت میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ تھی . تمام رات وہ کھڑکی میں کھڑی رہی . کبھی رو پڑتی ، کبھی خود ہی چپ ہو جاتی . روتے روتے وہ ماضی کے جھروکوں میں چلی گئی.

"ڈاکٹر صاحب! شفیق کیسے ہیں؟” وہ بےحال سی ڈاکٹر سے پوچھ رہی تھی.

"دعا کیجیے . دعا میں بڑی طاقت ہے.” ڈاکٹر یہ کہہ کر تو آگے بڑھ گیا مگر اقرار وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی.شفیق دو ماہ سے اسلام آباد ہسپتال میں داخل تھا. اس کو کچھ عرصے سے کمر میں بہت تکلیف تھی . ڈاکٹر کو دکھانے پہ معلوم ہوا کہ آہستہ آہستہ کر کے اس کے گردے ناکارہ ہو گئے ہیں. یوں ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا . اور آج اس کا آپریشن چل رہا تھا. سب خاندان والے ہسپتال میں جمع تھے. لیکن وہ دل ہی دل میں بہت پریشان تھی. شفیق کو کھونے کا تصور بھی اسے اندر تک لرزا دیتا تھا. شفیق کے بڑے بھائی ہی سب انتظامات دیکھ رہے تھے . وہ وہیں بیٹھی تھی کہ ایک ڈاکٹر پھر سے باہر آیا.

"جلدی سے خون کا انتظام کریں. مریض کو خون کی سخت ضرورت ہے.” ڈاکٹر جلدی سے کہہ کر اندر چلا گیا مگر باہر ہلچل مچ گئی . ہر شخص خون کی تلاش میں ادھر سے ادھر بھاگ رہا تھا. شفیق بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور لاڈلا تھا. اسی لیے اس میں سب کی جان تھی.

"میرے جسم سے خون کا قطرہ قطرہ نچوڑ لیں لیکن مہربانی کر کے آپ شفیق کو بچا لیں.” وہ لیبارٹری میں جا کر نرس سے کہتے ہوئے رو پڑی.
آپ حوصلہ کریں اور دعا کریں . اللہ بہتر کرے گا. انشاءاللہ . لیکن میں آپ کا خون نہیں لے سکتی .آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے.” نرس نے اسے تسلی دی .

"میں بالکل ٹھیک ہوں . آپ میرا خون لے لیں.” وہ اصرار کرنے لگی مگر اس کی امی جو اسے لیبارٹری کی طرف آتا دیکھ کر اس کے پیچھے آئی تھی ، اسے وہاں سے لے گئی. وہ آپریشن تھیٹر کے پاس پہنچی تو شفیق کو وہاں سے آئی- سی-یو منتقل کر دیا گیا.

"شفیق کے والد کو بلائیے.” ڈاکٹر نے آئی-سی-یو کے باہر کھڑی اقراء کو اور اس کی امی سے کہا.

"ان کے والد حیات نہیں ڈاکٹر صاحب.” اقراء کی امی نے جواب دیا .

"پھر اگر ان کے بڑے بھائی ہیں تو انہیں بلا دیں. مجھے کچھ بات کرنی ہے.” شفیق کے بڑے بھائی حنیف کو اندر بھیجا گیا . کافی دیر ڈاکٹر سے بات چیت کے بعد باہر آئے تو کچھ پریشان سے تھے. اقراء بھاگ کے ان کے پاس گئی.

"بھائی کیا بات ہے؟ کیا کہا ڈاکٹر نے؟ وہ کیسے ہیں اب؟” وہ سوال پہ سوال پہ کرتی گئی.

"آپ چپ کیوں ہیں؟ کچھ تو بولیں بھائی.” حنیف بھائی اس کو کوئی جواب نہ دے سکے. انہوں اقراء کے سر پر ہاتھ رکھا اور آگے بڑھ گئے. حنیف بھائی جان چکے تھے کہ ان کا بھائی اب نہیں بچ سکتا مگر وہ یہ سب کہنے سے قاصر تھے . وہ آئی-سی-یو کا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی. شفیق کا ہاتھ پکڑ کر اس سے باتیں کرنے لگی.

"شفیق آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں نا. مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے. میں آپ کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتی.” وہ بولتی گئی کہ شاید وہ اس کو سن رہا ہو. مگر وہ تو اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا. اچانک شفیق کا ہاتھ ہلا.

"ڈاکٹر صاحب انہیں ہوش آرہا ہے.” وہ پاس کھڑے ڈاکٹر سے کہنے لگی.

"آپ باہر جائیے. ہم دیکھتے ہیں.” وہ باہر چلی آئی. مگر اس کا دل اندر ہی تھا . وہ دروازے پہ ہی کھڑی ہوگئی.

"شفیق کے کتنے بچے ہیں؟” کچھ دیر بعد ایک ڈاکٹر باہر آیا اور پوچھا.

"دو ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی.” وہ یہ سن کر آگے بڑھ گیا. پھر ایک دوسرا ڈاکٹر باہر آیا.

"ڈاکٹر صاحب شفیق کو ہوش آگیا؟ اب وہ کیسے ہیں؟” وہ سوال پہ سوال کرنے لگی.

"شفیق! وہ تو اللہ کو پیارے ہوگے.” ڈاکٹر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا.

اسے لگا آسمان اس پہ آ گرا ہے. زمین اس کے قدموں کے نیچے سے نکل گئی ہے . یہی وہ آخری الفاظ تھے ، جو اس نے سنے تھے. وہ زمین پر گر گئی.

"اللہ اکبر – اللہ اکبر.” وہ ابھی کھڑی ہی تھی کہ فجر کی اذان ہونے لگی. اللہ اکبر کی آواز نے اسے چونکا دیا. جب وہ ہوش کی دنیا میں آئی تو چہرہ آنسوؤں سے تر تھا. وہ واش روم میں وضو کرنے لگی اور پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئی.

آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

♡————-♡————-♡————-♡————–♡————♡

اقراء قبرستان میں کھڑی تھی ——– اس وحشت ناک خاموشی میں وقفے وقفے سے سسکیوں کی آواز گونجتی تھی. کالے رنگ کے لباس میں بڑی سی چادر میں خود کو مکمل طور پر ڈھانپے وہ سامنے دیکھ رہی تھی ———؛؛

چہرہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن نم آنکھیں رونے کی عکاسی کر رہی تھیں. نظر سامنے موجود تختی پر ٹکی تھی ————- جہاں موٹے لفظوں میں محمد شفیق کندہ کیا ہوا تھا. قبر پر پھولوں کی چادر چڑھی ہوئی تھی. اور یہ شعر بھی ساتھ ہی کندہ کیا ہوا تھا.

تا حشر تیری دید کو ترستی رہیں گی میری آنکھیں
اس دل کو وہم و گماں بھی نہ تھا تیری جدائی کا

ساکت نگاہوں سے سامنے دیکھتی اقراء وہ لمحے یاد کرنے لگی ، جو اس نے شفیق کے ساتھ گزارے تھے . آج اس کی عدت کو ختم ہوئے بارہویں دن تھا مگر یوں لگتا کہ جیسے شفیق کو دیکھے صدیاں بیت گئی ہوں . ایک آخری نظر قبر پر ڈال کر فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے تو انگلی میں انگوٹھی دیکھ کر بے اختیار وہ منظر یاد آیا ، جب شفیق نے شادی کی رات منہ دکھائی کے طور پر وہ انگوٹھی اس کی انگلی میں پہنائی تھی .

آنسوؤں سے تر چہرہ کے ساتھ بمشکل فاتحہ پڑھ کر وہ اس شہر خموشاں سے چپکے سے باہر نکل آئی. اب اقراء تھی اور یہ پہاڑ جیسی لمبی تلخ زندگی ،،،،،،،،،،، دکھوں ،،،،،،،،،،، کانٹوں ،،،،،،،،،، تکلیفوں ،،،،،،،،،،اذیتوں سے بھر پور زندگی.

گزرے ہوئے کل کی یادوں سے مزین آج کی زندگی . جسے اس نے بچوں کے لیے جینا تھا. اپنا آپ تو وہ کہیں کھو ہی بیٹھی تھی. ہاں بچوں کو تو ماں اور باپ دونوں کا پیار چاہیے. وہ تو بےخبر ہیں اس بات سے کہ باپ تو اب کبھی واپس نہیں آئے گا؟ اور وہ خود شفیق کو پکارتی رہ گئی کہ:

مجھے پھر تباہ کر مجھے پھر رلا جا
اے ستم کرنے والے کہیں سے تو آجا

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.