گلو سے ڈاکٹر گل خان (افسانہ، تحریر: ریاض حسین ہوشیارپوری)
میں شام کی سرخی اور سورج کےغروب ہونےکا منظردیکھنا پسند کرتا تھا

تحریر: ریاض حسین ہوشیارپوری (ڈائریکٹرجوائنٹ فورسز گروپ آف سکولز چیچہ وطنی)
شام ڈھلنے کو تھی، سورج اپنی حرارت سمیٹ رہا تھا، تارے آنکھ کھولنے کے انتظار میں تھے، چھوٹے بچے سردی سے بچنے کے لیے اپنی ماوں کی گود میں بسیرا کر رہے تھے، میں شام کی سرخی اور سورج کےغروب ہونےکا منظردیکھنا پسند کرتا تھا، موبائل کا دور نہیں تھا بس اس منظر کو آنکھوں، دل و دماغ میں محفوظ کرنا میرا مشغلہ سا بن چکا تھا۔
معمول سے ہٹ کر ایک دن ایسا ہوا کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک 7،8 سالہ بچہ جانگیا (چڈی) پہنے ایک درخت کے تنے کے پیچھے چھپا بیٹھا ہے، ننگے پنڈے، اس دن سردی بھی منہ زور تھی.
قریب جا کر دیکھا تو وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ میں نے اسے پوچھا گلو(گل خان) اتنی سردی میں جہاں کیوں بیٹھے ہو؟ کیا ہوا، گھر جاؤ آپ کی اماں آپ کو تلاش کر رہی ہوگی۔ جب میں نے گھر جانے کا کہا تو وہ رو پڑا، کہنے لگا پا جی (محسن علی) میں گھر نہیں جانا چاہتا میری اماں مجھے مارتی ہے، وقت پر کھانا نہیں دیتی۔
گلو تمہاری ماں ایسا کیوں کرتی ہے؟ اس کی آنکھوں سے جھرنے پھوٹنے لگے، کہنے لگا وہ میری سوتیلی ماں ہے۔ تمہارے ابو کو سارا علم ہے؟ اس نے ہاں میں سر ہلایا، کیااسے سمجھاتے نہیں؟خیرمیرے سمجھانے پر وہ اٹھا اورگھر کی راہ لی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
کالج سے واپس اپنے گھر پیدل آرہا تھا، گلوسٹرک سے گنے کے خشک چھلکے اورپتے اکٹھے کرنے میں مصروف ہے۔ وہ اپنی دُھن میں مگن گنگنارہا تھا ؔشالا کدی کسے دی ماں نہ وچھڑے !!!”
دنیا سے بے خبر اپنی لگن میں گم، میں کچھ فاصلے پر کھڑاہوکر اسے دیکھنے لگا، گنگاتے وقت اس نے کئی بار اپنی آنکھوں کو صاف کیا، ماں کی یاد میں ساون برسنا فطری عمل ہے۔ میں اس کے قریب گیا اور مزاحیہ انداز میں اسے بلایا "او گل خانہ کیا کرتی ہے ادھرآو؟ توآج بڑا گنگا رہا ہے، اب کس کلاس میں ہو؟ اس طرح کے کئی سوال کردیئے، وہ ایک لمحہ کے لیے چونکا پیچھے مڑکر دیھکا، کہنے لگا پاجی (محسن علی) آپ کہاں سے آرہے ہو؟
کالج سے۔ بڑی مزے کی زندگی، فکر نہ فاقہ، صبح کالج جاتاہوں پھر گھر واپس۔ معصومانہ انداز میں کہنے لگا پاجی یہ زندگی تو بڑی مزے کی لگتی ہے، پاجی پڑھ لکھ کرڈاکٹر بنوگےکیا؟ یہ سوال کرنے کے بعد گلو کا منہ لٹک گیا۔ میں نے کہا بوتھا (منہ) کیوں لٹکالیا؟ گلو کہنے لگا! قسمیں تُسیں خوش قسمت ہو، لگتا میری زندگی تواسی طرح گلیوں اور بازاروں میں کوڑا کرکٹ(بالن، ایندھن) اکٹھا کرتے گزر جائے گی۔
میں نے کہا تم پڑھ تو رہے ہو، آپ اسی طرح کالج جایا کروگے، ایک دن بہت بڑے ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ بن جاو، گلو پھر تو نے مجھے بھی نہیں پہچاننا کہ میں کون ہوں؟ گلو کے مکھڑے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی،ہم دوست بن گئے۔ اس کی باتوں میں وہ افسردگی، ماں کا سوتیلے پن کا اظہار، ابو کی خاموشی۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ اس کے اچھے مستقبل کی طرف قدم قدم پر رہنمائی اورمدد کرتا جاوں۔
میں نے اپنی والدہ سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کر رکھا تھا، آج گھردوسری ملاقات کا ذکرکیا اوراپنا موقف بیان کیا، اماں جی نے کہا بیٹا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن یہ نہ ہوکہ کل کلاں اس کے والدین الٹا ہمیں گاوں میں ذلیل کرتے پھریں، دیکھوجی انہوں نے ہمارے بچے کو خراب کردیا ہے۔ میں نے کہا ماں یہ مجھ پر چھوڑ دیں۔ بس ابا جی کو بھی بتا دیں خدانخواستہ کبھی ایسی بات نکلتی ہے توان کےعلم میں ہوتا کہ بعد میں پھر ہم ماں بیٹا اباجی کے ہاتھوں خوار ہوں، لیکن اباجی کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہ آیا۔
میں نے گلو کے والد سے ملاقات کی،گلو کے مستقبل کے بارے میں بتایا اورخود اس کی پڑھائی کی ذمہ داری کا اظہارکیا، گلو کے ابو راضی ہو گئے۔ اب معاملہ گھر کے لیے بالن (ایندھن) اکٹھا کرکے کون لائے گا؟ میں نے ان کوتسلی دی کہ اب یہ ذمہ داری بھی میری ہے۔ میں نے امی جان سے ذکر کیا تو بہت خوش ہوئیں، میں نے مزید بتایا کہ ان کا ایشوایندھن کا ہے ۔۔ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔۔ کہنے لگیں یہ کیا بات ہے نوکر سے کہہ کر اس کے گھرلکڑیاں بجھوا دیتے ہیں، لیکن تم نے اپنے فیصلے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ گلوکو بیچ چوراہے نہ چھوڑنا۔ مجھے اور حوصلہ ملا چلو اب بات پکی ہوگئی، کسی کا مستقبل بنے گا تو کسی کے لے صدقہ جاریہ اور گلواچھے مستقبل کے ساتھ اچھا شہری بن جائےگا۔
اب میرا اور گلو کا یارانہ گیا، وہ سکول آتا گھر کا کام کاج کرواتا اور شام کو میرے گھرآجاتا، ہم دونوں رات گئے تک پڑھتے، میں اس کے گھر چھوڑنے جاتا،جب اس کے ابو دروازہ کھولتے توحقیقی مسکراہٹ ملتی اگر سوتیلی ماں دروازہ کھولتی تو منفی مسکراہٹ اور دروازہ بند کرتے وقت بڑبڑاہٹ سی سنتی خیرمیرا اس سے کیا لینا دینا تھا۔
میرا ایک مشن تھا وہ مکمل کرنا مقصود تھا۔ اب گلو اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کرچکا تھا، لوگ گلو کے والدین کو مبارک بادیں دے رہے تھے۔ اس وقت مجھے حقیقی خوشی کا علم ہوا کیا ہوتی ہے۔
کالجز میں داخلے شروع ہوتے ہی میں نے گلوکو ساتھ لیا، ہنستے مسکراتے بس سٹاپ پر پہنچ گئے۔ گلو نے بڑی حیرانگی سے سوال کیا! پاجی (محسن علی) اچھا آپ ادھر سے بس پرسوار ہو کر کالج جاتے تھے، خود ہی جواب دینے لگا، اب ہم زندگی کے نئے موڑ پر کھڑے ہیں، الحمد للہ کالج میں داخلہ کے لیے جارہے ہیں، آپ کی ماں بھی تو اب آپ سے وہ سلوک نہیں کرتی، پھرجب تم میرے گھرآتے ہو میرں ماں جی آپ سے میری طرح ہی تو پیارکرتی ہیں، میرے پاس ایک ماں ہے، لیکن پاس دو مائیں ہیں، گلونے قہقہ لگایا۔
گلو کہنے لگا پاجی مجھے کس کالج میں داخل کرواؤگے؟ اسی میں جس میں آپ نے پڑھا ہے؟ میں نے کہا چل یار گلو تم ہی بتاو کس کالج میں داخلہ لینا چاہتے ہو، ہم اس میں داخلہ فارم جمع کرواتے ہیں، گلو کہنے لگا نہیں بھائی، آپ نے میرے ساتھ ایک بڑے بھائی ہونے کا کردار اداکیا، مجھے یقین ہے میرا بڑا بھائی میرے لیے اچھا ہی سوچے گا، مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب میں گلی محلے سے خشک چھلکے اور پتے اکٹھے کیا کرتاتھا، گلو میں آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو ٹپک پڑے۔
کالج میں داخلہ کروانے کے بعد خوشی خوشی گھر آئے میری اماں جی نے پہلے گلو کو گلے لگایا، پیار کیااور مبارک باد دی پھرمجھے گلے لگاتے ہوئے تھپکی دی اور منہ چوما۔ لسی پینے کے بعد گلو اپنے گھر چلا گیا۔
گلو کالج کا ایک ذہین، محنتی اور ٹاپرسٹوڈنٹ بن چکا تھا۔ گلواب گلی محلے کے خشک پتے اور چھلکے اکٹھے کرنے والا گلو نہیں تھا بلکہ آنکھوں میں ڈاکٹر کا خواب سجائے رکھنے والا پروفیشنل ڈاکٹرتھا۔ اس کی شخصیت میں نکھارآچکا تھا۔ اس کی محنت رنگ لائی، ایف ۔ایس سی میں بہت ہی اچھے نمبرحاصل کئے اور میڈیکل میں داخلہ ہو گیا۔
امیر گھرانے کی میرب اس کی کلاس فیلو تھی، بڑی شوخ ، سب کو مات دینے والی، پاوں کی ٹھوکر سے کرسیاں الٹ پلٹ کرنے والی گلاب دیوی۔ میرب کی کرسی گلو کے قریب سے قریب ترہونے لگی، گلو کواسے سے کوئی سرکار نہیں، اس کی آنکھوں میں ایک ہی خواب تھا "ڈاکٹر”۔ گلوکالج یونیفارم میں قدآورشخصیت بن چکا تھی۔ گلوکالج لائبریری میں مطالعے میں مصروف تھا، میرب بھی لڑکیوں کے ساتھ گلو کو تلاش کرتی آ پہنچی، سامنے بیٹھتے ہی طنزیہ قہقہ لگایا، گلو نے اس کی طرف دیکھنا پسند نہیں کیا۔
میرب اب سنجیدہ ہوچکی تھی، بڑے ہی ادب سے۔۔ گل خان! تمہیں معلوم ہے کہ میں کسی کو لفٹ نہیں کرواتی لیکن آج میں بے بس ، دل سے مجبورہوکر آپ کے پاس آئی ہوں، کلاس فیلوز میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن تو اپنی دنیا میں الگ تھلگ گم رہتاہے۔ میں کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔ گل خان نے جواب دیا! ” میرب میرا خواب میرا مستقبل ہے” اس کے علاوہ میری نظراوردل کام ہی نہیں کرتا۔ خواب پورا ہونے پر دنیا کی رونق کو دیکھوں گا یہ کیسی ہے؟ میرب آپ کے بڑے پن،بھروسے اور اعتماد کا شکریہ۔ یہ کہہ کرپھرمطالعہ میں گم ہو گیا۔
گلو بہت بڑا ڈاکٹر بن چکا تھا۔ بیرونِ ملک مقیم ہوگیا۔اپنے بھائی(محسن علی) سے رابطے میں رہنے لگا وقت گزرتا گیا۔اچانک رابطے منقطع ہو گئے، اپنی اپنی دنیا میں مگن۔ ڈاکٹر گل خان ماہرامراضِ دل تھا،آج جیسے ہی ہسپتال داخل ہوا اسے کاونٹر پرکھڑا شخص جانا پہچانا سا لگا، یہ سوچ کرآگے بڑھ گیا کہ محسن بھائی کا جہاں کیا کام؟ اپنے آفس میں جاکر سوچوں میں گم کھڑکی کا پردہ اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگایہ کہیں محسن بھائی ہی نہ ہو۔ گھنٹی بجتی ہے، نرس سے پوچھا کاونٹر پر کھڑا شخص کون ہے؟ سر وہ محسن علی پاکستان سے ہے، اب ڈاکٹر گلو سے پھر گلو بن گیا، کمرے سے نکلا اور سیدھا محسن علی کے گلے لگ گیا اورکچھ بتائے بغیر اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا۔
حیرانی اور بےچارگی میں درجنوں سوال پوچھ ڈالے، محسن علی نے بتایا میری والدہ اسی ہسپتال میں داخل اور دل کی مریضہ ہے۔ گلو فوراً وارڈ میں پہنچا، ماں کے قدم چومنے لگا، سارے عملے کی توجہ کامرکز ڈاکٹر گل خان بن چکاتھا، گل خان کی آنکھوں میں خوشی اور پریشانی کے آنسو ٹپک رہے تھے۔ اللہ کریم نے ماں جی کو صحت بخشی۔ گلو اسے اپنے گھر لے گیا۔
اماں کو بیڈپرلٹایا اور خود اس کے پاوں کی طرف نیچے بیٹھ گیا۔ غصے سے خود کوکوسنے لگا کہ کیسی زندگی کی مصروفیات ہیں کہ ہم اپنے محسنوں سے رابطہ بھی نہیں کرسکتے۔۔ محسن علی نے گلو کوزمین سے اٹھایا گلے لگایا کہ یار یہی دنیا ہے، ہمیں رب کریم کا شکر اداکرنا چاہے کہ جس نے ہمیں پھر ملا دیا۔ جزاک اللہ