اس دل پہ نام تمہارا ہے ( از قلم: کنزا مخدوم، سرگودھا )

عبدالرافع مصالحہ جات ڈھونڈنے کمرے میں گیا تو کمرے میں بہت اندھیرا تھا ۔

امرحہ تم جاؤ عرییشہ کا زیور ہوگا سائیڈ والے کمرے میں وہ تو لے آؤ. امرحہ عریشہ کا زیور لینےسائیڈ والے روم میں آئی. عبدالرافع انتظامیہ کے فرائض سرانجام دے رہا تھا ۔مہمانوں کے لیے طرح طرح کے پکوان بنوانے میں مصروف تھا۔ آخر امرحہ کی چہیتی کزن کی اور کلاس فیلوکی شادی تھی ۔

عبدالرافع مصالحہ جات ڈھونڈنے کمرے میں گیا تو کمرے میں بہت اندھیرا تھا ۔ ابھی وہ کوئی چیز ڈھونڈنے ہی لگا تھا کہ دروازہ باہر سے بند ہونے کی آواز آئی عبدالرافع اور امرحہ اندھیرے کی وجہ سے ایک دوسرے کے اوپر لگے۔ اندھیرے میں مشکل سے ایک دوسرے کو پہچان پائے۔ امرحہ جو شروع سے عبدالرافع سے نفرت کرتی تھی۔ عبدالرافع سے وہ اس حرکت کی توقع نہیں کر رہی تھی۔

میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ اس حد تک گر جائیں گیں۔ رافع بولا یہ تم کیا کہہ رہی ہو میں تو خود حیران ہوں کیسے ہوا یہ سب ۔ نہیں جانتی ہوں میں سب۔ عریشہ کا نکاح ہونے لگا تو سب کو عبدالرافع اور امرحہ کی کمی محسوس ہوئی امرحہ کے والد ندیم امرحہ کو ڈھونڈ رہے تھے۔ سب کی فیملی عریشہ کی شادی کے لیے آئی ہوئی تھی۔ آخر کا ر ندیم اس آخری کمرے تک آئے دروازہ کھولا تو حیران رہ گئے۔تم نے میری عزت نیلام کر دی۔ لیکن ابو میں نے کیا کیا ہے میری بات تو سنیں۔

ندیم نے ہاتھ کے اشارے سے چپ رہنے کو کہا عریشہ کا نکاح تیار تھا ۔تو ندیم نے اعلان کیا کہ ابھی اور اسی وقت امرحہ کا عبدالرافع سے نکاح ہوگا۔ ابو جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ خاموش عزت نیلام کرنے سے بہتر ہے۔ اس سے شادی کر لو عبدالرافع امرحہ سے بہت پیار کرتا تھا ۔ مگر اس حادثے سے بے خبر تھا۔ امراحہ کا نکاح عبدالرافع سے ہو رہا تھا ۔ دور کھڑا عدنان مایوس ہو گیا۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔ امرحہ جس کزن سے بے حد نفرت کرتی تھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک دن اسی سے شادی ہو گی۔ عریشہ عادل کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی ۔ امرحہ عبدالرافع کے ساتھ اور ندیم اپنی فیملی کو لے کر گاؤں آگئے۔……

ندیم اور حیدر دونوں بھائی تھے شادی کے بعد حیدر شہر چلے گئے۔ جبکہ ندیم گاؤں میں مقیم رہے۔ ندیم کے دو بچے تھے۔ بیٹی امرحہ اور بیٹا متجز نجمہ بیگم اور ندیم متجز سے بڑھ کر امرحہ سے محبت کرتے تھے۔ گاؤں سے شہر وہ گاڑی پر کالج پڑنےجاتی تھی۔ حیدر کا اکلوتا بیٹا عبدالرافع تھا۔عبدالرافع جب پانچ سال کا تھا۔ تو حیدر دل کے اچانک دور سے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ فائزہ نے بڑے لاڈ اور پیار سے عبدالرافع کو پالا عبدالرافع جب بڑا ہوا تو عبدالرافع نے پڑھ لکھ کر اپنے والدکا بزنس سنبھال لیا ۔امرحہ اپنی چچی سے بہت پیار کرتی تھی۔ کالج آتے جاتےوہ لازمی فائزہ چچی کو ملنے جاتی تھی۔

بچپن سے جوانی تک عبدالرافع نے امرحہ کو دیکھا تھا ۔اور اسے پسند بھی کرتا تھا ۔مگر امرحہ کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ عریشہ امرحہ کی خالہ زاد تھی اور امرحہ کی کالج فیلو بھی اس کی شادی پر سب آئے ہوئے تھے۔ کالج میں بہت سے لڑکے امرحہ پر مر مٹتے مگر وہ کسی کو بھاؤ نہ دیتی تھی۔ اسے خود میرا رہنا پسند تھا۔ …..

عبدالرافع کمرے میں داخل ہوا تو امرحہ چلائی پلیز رافع میرے قریب مت آنا نہیں مانتی میں اس نکاح کوعبدالرافع پھر بھی اس کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ عبدالرافع امرحہ کے بہت قریب کھڑا تھا ۔امرحہ کو اس کی سانسوں کی تپش اپنی چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔ امرحہ کو کنفیوز ہوتا دیکھ کر عبدالرافع بولا اتنے خوبصورت کپڑے پہننے کی کیا ضرورت تھی۔ اس لیے تم نے پہنے ہیں۔ کہ میں تمہارے قریب آؤں عبدالرافع امرحہ کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا ۔اگر میں چاہوں تو تمہارے ساتھ زبردستی بھی کر سکتا ہوں ۔ بیوی ہو تم میری اور سب سے بڑھ کر میری محبت لیکن میں آپ کی اس محبت کو امرحہ بولی ہی تھی۔ کہ عبدالرافع نے اس کے ہونٹوں پہ اپنی انگلی رکھ دی ۔ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی۔ اور آج تمہیں میں یہ کلیئر کر دوں۔ تم سے زیادہ مجھے چاچو کی عزت عزیز ہے میں نے یہ حرکت نہیں کی۔ یہ سازش ہے کسی کی عبدالرافع پیچھے ہٹا تو امرحہ نے شکرادا کیا۔

آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کی باتوں پر یقین کر لوں گی تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔….. ندیم میرا بڑا دل کر رہا ہے آج امرحہ سے ملنے کو چپ کر کے بیٹھو اس نے ہماری عزت مٹی میں ملا دی اور تمہیں ابھی بھی اس کی پڑی ہوئی ہے ندیم نجمہ پر بہت غصہ ہوئے۔ …..
چچی میرا دل کر رہا ہے امی ابو سے ملنے کا ادھر امرحہ بھی امی ابو سے ملنے کو بے تاب تھی۔ تو کوئی بات نہیں بیٹا میں عبدالرافع سے کہتی ہوں تمہیں لے جائے گا۔ آج آفس سےوہ چھٹی کر لے گا۔ نہیں چچی آپ ڈرائیور سے کہیں چھوڑ آئے گا بری بات بیٹے ندیم بھائی اور بھابھی کیا کہیں گے کہ تم بوجھ ہو ہم پر جاؤ عبدالرافع کے ساتھ ۔

امرحہ کمرے میں تیار ہونے آئی تو عبدالرافع چھیڑنے لگا چلو گی میرے ساتھ تو کیا کروں مجبوری ہے۔ تو منع کر دو چچی کو نہیں کر سکتی اور ہاں میرے قریب آنے کی کوشش مت کرنا راستے میں او ہیلو !مجھے کوئی شوق نہیں ہے ۔تمہارے قریب آنے کا مجبوری ہے میری وہ تو پتہ ہے مجھے۔ کتنا شوق ہے آپ کو اتنا ہی پتہ ہے تو دور کیوں کرتی ہو مجھے۔ عبدالرافع قریب ہوا توامرحہ نے دھکا مار کر عبدالرافع کو پرے دھکیلا اپنی بیوی سے فری نہ ہوں تو اور کیا باہر کی لڑکیوں سے ہوں۔ خبردار جو کسی غیر لڑکی کا نام زبان پر بھی لائے امرحہ فوراً بول پڑی او جیلسی چلیں دیر ہو رہی ہے۔امرحہ نے جان بوجھ کر موضوع بدلہ۔

شام کے قریب امرحہ اور عبدالرافع گاؤں پہنچے نجمہ بیگم بیٹی سے مل کر بہت خوش ہوئی بہت اچھا انتظام کیا گیا ندیم زمینوں سے بہت لیٹ آئے داماد اور بیٹی سے نہیں ملے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ کھانا کھانے کے بعد عبدالرافع کی چارپائی چھت پر بچھا دی گئی۔ وہ اوپر سوئے گا مرتجز گھر پر نہیں تھا وگرنہ جب کبھی عبدالرافع گاؤں آتا تو وہ دونوں مل کے چھت پر سوتے۔

کزنز ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے۔ چھت پر بہت مچھر تھا عبدالرافع چارپائی پہ بیٹھا ہوا تھا امرحہ چادر اور لوشن لے کر چھت پر آئی۔یہ لیں چادر اور لوش مچھر کاٹ رہا ہوگاآپ کو ۔عادت جو نہیں ہے مچھر میں سونے کی۔تمہارے لئے مچھرمیں سو سکتا ہوں۔ لیکن تمہارے بغیر نہیں سو سکتا عبدالرافع نے امرحہ کا ہاتھ تھاما نہیں رافع ابو پہلے ہی ناراض ہیں۔ اس حرکت سے تو مزید ہو جائیں گے۔ آپ سو جائیں صبح ہم لوگ چلے جائیں گے بڑی ظالم ہو یار گھر میں بھی تو صوفے پر سلاتی ہو مجھےامرحہ مسکراتی ہوئی سیڑھیاں پار کر گئی۔ ناشتہ کر کے امرحہ اور عبدالرافع گھر آگئے۔

عبدالرافع آفس بیٹھا تھا کہ کسی نے دروازے پر ناک کیا yes come بیٹھیں عبدالرافع نے دو کپ چائے منگوائے جی بتائیں آپ کی تعریف میرا نام عدنان ہے ۔امرحہ کا کالج فیلو ہوں۔ مجھ سے کیا کام ہے آپ کو عبدالرافع کو بہت برا لگا ۔دراصل میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں امرحہ سے بھی مانگنا چاہتا ہوں۔ مگر آپ کے گھر آنا مناسب نہیں لگا۔ کیسی معافی عبدالرافع نے پوچھا سر اس دن عریشہ کی شادی پہ آپ دونوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہواسب میری وجہ سے ہوا۔کیا؟ عبدالرافع نے حیران ہو کر پوچھا جی میں امرحہ سے پیار کرتا تھا ۔میرے کچھ دوست تھے میں نے جب انہیں شادی کا بتایا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ تم ایسے کرنا تمہاری شادی امرحہ سے ہو جائے گی۔

لیکن سارا کھیل الٹ ہو گیا لعنت ہو تم پر عبدالرافع چلایا ۔ محبت زبردستی نہیں پائی جاتی اب چلے جاؤ یہاں سےامرحہ مجھے قصور وار سمجھتی ہےاس سب کا ۔ عبدالرافع گھر آیا توامرحہ اندرکمرے میں کپڑے پریس کر رہی تھی۔ امرحہ مجھے کچھ تم سے بات کرنی ہے۔ ہاں بولیں سن رہی ہوں میں ایسے نہیں مکمل متوجہ ہوں میری طرف امرحہ کو کاندھوں سے پکڑ کر اس کا رُخ اپنی طرف کیا۔اور عدنان کے بارے میں سب بتانے لگا۔امرحہ عبدالرافع کی باہہوں کو ہٹا کے دور کھڑی ہوئی۔

کہانی مت بنائیں یہ کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں کہ میں یقین کرلوں گی آپ کی اس جھوٹی کہانی پہ۔ عبدالرافع حیران ہوا ! کیا مطلب؟ تمہیں لگ رہا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ میری محبت جھوٹی ہے مجھے لگ نہیں رہا بلکہ یقین ہے۔ اگر اس نے معافی مانگنی ہوتی تو مجھ سے مانگتا میرا وہی نمبر چل رہا ہے ۔مجھے وہ کال کر سکتا تھا۔ آپ کو تو وہ جانتا تک نہیں پھر آپ کے پاس کیسے گیا توتمہیں اس دو ٹکے کے انسان پر یقین ہے۔ اور اپنے شوہر پر نہیں۔ بہت افسوس ہوا امرحہ میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں۔ مگر اپنی توہین نہیں وہ گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا دوبارہ گاڑی لے کر باہر نکل گیا امرحہ روکتی رہ گئی۔ مگر وہ کہاں سننے والا تھا۔ چچی چچی امرحہ فائزہ کے کمرے میں گئی۔ سب کچھ بتایا اللہ خیر کرے بیٹی تم ہی سمجھ سے کام لے لیتی تمہیں اس کے غصے کا نہیں پتہ جب غصہ اسے آیاہوتا ہے تووہ جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ غلطی ہو گئی چچی کیا کروں؟ دعا مانگو امرحہ ابھی اٹھی ہی تھی کہ گھر کے نمبر پر کال آگئی۔ کس ہسپتال میں میں آرہی ہوں۔ کیا ہواچچی؟ عبدالرافع ایمرجنسی میں ہے ایکسیڈنٹ کر دیا اس نے میں جا رہی ہوں۔ ڈرائیور کے ساتھ تو میں ندیم بھائی اور بھابھی کو بتا دیناامرحہ مشکل سے کمرے میں پہنچی تھی۔ کہ موبائل پر عدنان کالنگ جگمگانے لگا۔

امرحہ نے موبائل کانوں سے لگایا تو عدنان معافی مانگ رہا تھا ۔وہی باتیں کر رہا تھا جو عبدالرا فع نے اسے بتائیں تھی۔ امرحہ کال کاٹ کے اونچی اونچی آواز میں رونے لگی یہ میں نے کیا کر دیا۔ پھر گاؤں فون کیا پہلی کال پر کسی نے نہ اٹھایا پھر مرتجز کے نمبر پر کال کی تودوسری بیل پر کال اٹینڈ کر لی گئی ۔سب ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر جب باہر نکلا تو اس سے پوچھا کیسی طبیعت ہے عبدالرافع کی ڈاکٹر نے جواب دیا کہ خون چاہیے دو بوتلیں خون بہت زیادہ نکل گیا ہے۔مرتجز نے دو بوتلیں خون کی دیں امرحہ جائے نماز پر بیٹھی دعائیں مانگ رہی تھی ۔جب اسے خبر ملی کہ اب عبدالرافع خطرے سے باہر ہے۔ امرحہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دو نوافل شکرانہ بھی ادا کیے۔ اب وہ سب عبدالرافع سے مل رہے تھے۔ عبدالرافع کی نگاہیں جس چہرے کو تلاش کر رہی تھی وہ چہرہ ابھی آنکھوں سے اوجھل تھا۔

ندیم عبدالرافع سے معافی مانگ رہے تھے۔ نہیں چاچو آپ کااس میں کوئی قصور نہیں آپ نے جو کچھ بھی کیا اچھا کیا مجھے کوئی گلہ نہیں آپ سے ۔بلکہ کوئی باپ ہوتا تو یہی کرتا۔ سب باہر چلے گئے تو امرحہ کمرے میں آئی بیڈ پر بیٹھی تو عبدالرافع نے اٹھنا چاہا لیکن امرحہ نے روک دیا نہیں اٹھیں تکلیف ہوگی۔ نہیں اب مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ تم میرے پاس ہو اچھا تو پھر اتنا بڑا قدم اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگرآپ کو کچھ ہو جاتا تو کیا میں جی پاتی؟ ہاں جی لیتی کیونکہ تمہیں مجھ سے محبت جو نہیں ہے, اور میں نے بچپن سے تمہیں لے کر آج تک بس تمہیں چاہا ہے, اور جب تک سانسیں میں چاہتا رہوں گا ۔

آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں ۔کہ مجھے محبت نہیں آپ سے۔ او تو محبت ہو گئی ہے مجھ سے۔ ہاں کب ہوئی پتہ نہیں لیکن ہو گئی ہے یہ پتہ ہے مجھے۔ اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہ کرتی ویسے آپ اتنے جذباتی کب سے ہو گئے۔ پہلے تو ایسے نہیں تھے۔ تمہارے معاملے میں ایسا ہی ہوں ۔اور جو میری محبت کو جھوٹا کہے پھر مجھے کیا حق ہے جینے کا۔ تو کیا ساری زندگی ایسے ہی رہیں گے ؟ہاں اس سے بڑھ کر پیار کروں گا۔

اگر تم عبدالرافع کی محبت میں قید رہناچاہو تو امرحہ نے عبدالرافع کے سینے پہ اپنا سر رکھ دیا۔ آہ ہہہہہہہہ امرحہ اوپر اٹھی درد ہو رہا ہے۔ نہیں تم ایسے ہی میرے سینے سے لگی رہو ۔ تو درد کی مجال کے وہ میرے قریب بھی آئے ۔ امرحہ سنوجی بولیں اس دل پہ نام تمہارا ہے۔عبدالرافع نے امرحہ کا ہاتھ اپنے دل پر رکھا ۔ تو امرحہ مسکرانے لگی۔اب امرحہ کو یقین ہوگیا تھا کہ اس دل میں اب میں ہی ہوں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.