کھوکھلا تعلق ( کوکب مشتاق، گجرات )

آج کئی برس گزر جانے کے بعد وہ اپنی دوست مہر بانو سے ملی تھی۔

"ارسلان کی چاہت نے تو میری زندگی گلزاربنا دی ہے، یقین جانو ہر دن حسین اور ہر شب جوان” ۔۔۔۔۔ نتالیہ نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اپنے خوبصورت کالے ریشمی بالوں کو جھٹکا دیا۔ 

آج کئی برس گزر جانے کے بعد وہ اپنی دوست مہر بانو سے ملی تھی۔ کالج کے زمانے میں نتالیہ اسے پیار سے مہرو کہہ کر پکارتی جبکہ نتالیہ مہرو کے لیے تالیہ تھی۔ مہرو کی کالج کے آخری سال میں ہی شادی ہو گئی تھی اور اب اس کے 2 بچے بھی تھے اور چہرے سے ان معصوم بچوں کی فکر کے آثار واضح طور پر نظر آرہے تھے، مگر نتالیہ پہلے ہی کی طرح خوبصورت، حسین اور اسمارٹ تھی۔

جب سے وہ مہرو کو ملی تھی اپنے شوہر کی تعریفوں میں لب رسان تھی جبکہ مہرو غائب دماغی سے بس اس کی باتیں سن رہی تھی اور اس کے لیے تو کھڑا ہونا محال ہو رہا تھا۔ 

” مہرو تمہیں پتہ جب مجھے الگ گھرملا تو ارسلان نے کسی کی پرواہ نہیں کی یہاں تک کے اپنی ماں کی بھی نہیں اور فوراً میری محبت میں سب سے الگ ہو گئے کہ بس میں اور تم ہوں باقی ساری دنیا اک طرف۔۔۔۔۔وہ تو اپنا ہر لمحہ بس میرے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں ۔ شادی کو سات سال ہو رہے لیکن کیا مجال جو انہوں نے کبھی کسی دوسری عورت کی طرف دیکھا بھی ہو” مہرو تو بس سنتی جا رہی تھی اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو مجھے بیٹھنے کا کب کہو گی۔۔۔۔۔؟

نتالیہ لیکچرار تھی اور اسے یونیورسٹی کی طرف سے گھر مل گیا تھا۔

” ارسلان کو تو میرے بغیر سانس بھی نہیں آتی۔ ہم آج بھی سمندر کنارے نئے شادی شدہ جوڑے کی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے چلتے ہیں اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ وقت تھم جائے ۔”

نتالیہ کا تو ارسلان نامہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ مہرو نے بےچینی میں پہلو بدلا اس میں مزید کھڑے ہونے کی سکت نہیں تھی۔اس کے آخری ماہ چل رہے تھے آج وہ اس آنے والے مہمان کے لیے خریداری کرنے آئی ہوئی تھی کہ نتالیہ سے ملاقات ہوگئی۔ 

” اچھا تمہیں اک راز کی بات بتاؤں ؟” 

نتالیہ نے پرجوش لہجے میں مہرو کے قریب آتے سرگوشی کی۔ 

” ارسلان نے تو مجھے آج تک بچوں کا سوچنے ہی نہیں دیا اور وہ چاہتے ہی نہیں ابھی۔۔۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے بیچ کوئی تیسرانہیں آنا چاہئیے۔”وہ ارسلان کی چاہت کے خمار میں یہ سب بول رہی تھی یا مہرو کو کچھ جتانا چاہ رہی تھی۔ 

پہلے تو مہرو سب باتیں سن رہی تھی لیکن اس بات پے اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔

” بھلا یہ کیسی محبت ہے؟” مہرو نے سوال کیا۔

نتالیہ نے بڑے فخر سے کہا۔۔۔۔۔۔

” وہی جو تمہارے میاں تم سے نہیں کرتے۔”

"اچھا چھوڑو اگر ایسی محبت نہیں ہے تو کسی بات سے تو محبت چھلکتی ہوگی ؟”

نتالیہ نے اگلا سوال کر ڈالا۔ اک طرح سے نتالیہ نے اسے سوچنے پےمجبور کر دیا۔ 

وہ ٹھہر ٹھہر کے بولنے لگی۔ 

” خرچہ اٹھاتے ہیں، بچوں کی اور میری تمام تر ضروریات اور خواہشات پوری کرتے ہیں، ہر ہفتے میکے لے جاتے ہیں، مہینے میں اک آدھ بار باہر گھمانے لے کے جاتے ہیں ۔” 

مہرو نے بہت اطمینان سے اپنی محبت کے کئی پہلو نتالیہ کے سامنے رکھ دئیے۔ 

نتالیہ ناک چڑاتے ہوئے بولی!

” لو بھلا یہ بھی کوئی محبت ہوئی؟”

"ارے بانو تم یہاں کھڑی ہو؟” 

ایک عام سی شکل و صورت کا آدمی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا مہرو کے قریب آیا اور پاس کھڑی نتالیہ کو نظر انداز کر کے مہرو کا ہاتھ تھام کر چلنے لگا۔ 

” چلو آؤ آرام سے ۔۔۔۔۔۔امی اور بچے کب سے تمہاری راہ دیکھ رہے میں تو پریشان ہی ہو گیا، مجھے لگتا ہے جب سے اوپر آئی ہو تب سے یہیں کھڑی ہو، چہرہ دیکھو کس قدر زرد ہو رہا ہے،ابھی بھی میں نہ آتا تو طبیعت خراب ہو جاتی ناں۔۔۔۔۔۔”

پیار سے بھرپور ڈانٹ سن کر مہرو مسکراتے ہوئے بولی ۔

” رکیے تو ۔۔۔ ان سےملیں دانیال ۔۔۔یہ میرے کالج کی سہیلی ۔۔۔۔۔نتالیہ”

دانیال نے نتالیہ کو سلام کہا اور بولا

” بہت اچھی دوست ہیں بھئی۔۔۔۔کب سے تمہیں اس حالت میں کھڑا کر کے جانے کیا قصے شروع کر دئیے۔ کہیں بٹھاتیں ، کافی چائے پلاتیں۔”

دانیال مسکراتے ہوئے طنز کے نشتر چلائے تو نتالیہ مارے شرمندگی کے اپنے آپ میں سمٹ کے رہ گئی۔ 

"بھائی آئیے کہیں بیٹھتے ہیں ” نتالیہ نے مروت میں کہا۔ 

"آپ کا بہت شکریہ، پھر کبھی سہی ۔۔۔۔۔ابھی مہربانو بہت تھک گئی ہے ، آپ آئیے گا ناں کبھی گھر۔ دانیال نے ہلکی سی مسکان چہرے پے سجائے نتالیہ کو مدعو کیا۔”

دونوں نتالیہ کو رسمی الوداعی کلمات کہتے ہوئے مڑے ۔ مہرو کے بے ڈول وجود کو کتنی محبت اور چاہت سے اس کے شوہر نے تھاما ہوا تھا پیچھے کھڑی نتالیہ دیکھ رہی تھی۔ 

جانے وہ کس حسرت سے ان دونوں کو جاتا دیکھ رہی تھی۔اس کی نظر دور تک ان دونوں کا تعاقب کرتی رہی اسی بیچ جب وہ لفٹ سے اوپر جارہی تھی تو مال کے ریستوران میں اس نے اپنے شوہر ارسلان کو کسی حسینہ کے ہاتھ تھامے خوش گپیوں میں مصروف دیکھا۔ نتالیہ کے کانوں میں اس کی ماں کی آوازگونج رہی تھی۔

” مرد جب محبت کرتا ہے تو عورت کو ادھورا نہیں چھوڑتا بلکہ اولاد کی دولت سے اس کے گلشن کو سیراب کرتا ہے اور ارسلان صرف ڈالی ڈالی منڈلانے والا وہ بھنورا ہے جو خوشبو اور شوخ رنگ کا شوقین ہے اس کی کھوکھلی چاہت اور محبت تمہیں کبھی سیراب نہیں کر سکے گی۔”

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.