معاہدہ (اردو افسانہ ، تحریر عمار حسین لودھراں)
ایک حادثے میں اُس کی ٹانگ ضائع کیا ہوئی، گویا اُس کی زندگی کا سفر ہی رک گیا۔

ان گرمیوں میں ضرور مصنوعی ٹانگ لگوا لوں گا ۔ منصور احمد نے فیصلہ کن انداز میں سوچا اور کئی بار گنے ہوئے نوٹوں کو ایک طرف رکھ دیا۔ ڈاکٹر کی بتائی ہوئی رقم میں سے صرف پچاس ہزار روپے کم تھے ۔ اسے پورا یقین تھا، کہ چھ ماہ کے اندر وہ اتنی رقم ضرور بچا لے گا ، جس سے اس کی معذوری کم ہو جائے گی اور اس کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔
بیساکھیوں کے سہارے جینے سے وہ اکتا چکا تھا۔ اس کی بغلوں میں نشان پڑ چکے تھے ۔ اکلوتی ٹانگ کو وہ جب بیساکھی کے سہارے گھسیٹتا تو کولہوں سے اوپری ہڈی اُس کی پسلیوں میں کھب سی جاتی اور یوں چلنے میں جہاں اُسے دشواری ہوتی ، وہاں ایک تڑپا دینے والا درد بھی چھوڑ جاتی ۔
ایک حادثے میں اُس کی ٹانگ ضائع کیا ہوئی، گویا اُس کی زندگی کا سفر ہی رک گیا۔ ان دنوں میں وہ گریجویشن کا طالب علم تھا، جب ایک تیز رفتارگاڑی نے اسے کچل دیا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا اگر ٹانگ نہ کاٹتے تو زندگی جا سکتی تھی ۔ بظاہر زندگی بھی گئی تھی لیکن منصور احمد کے قریب زندگی عذاب بن چکی تھی۔
سب سے پہلا غم اسے یہ ملا کہ وہ چلتا پھرتا بستر پر پڑ گیا۔ دوسرا غم تو جیسے اُس کی زندگی چھن جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا اور وہ تھا شہلا کا اُسے چھوڑ جانا ۔ جس لڑکی کو وہ جی جان سے چاہتا تھا اور جس کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار تھا اس نے یہ کہ کر رشتہ ختم کر دیا تھا کہ معذور شخص کے ساتھ زندگی گزارنا جہنم میں جانے سے کم نہیں۔ شہلا اگر غیر ہوتی تو پھر بھی ایک جواز موجود تھا، وہ تو اُس کی خالہ زاد تھی اور پھر دونوں نے ایک دوسرے کو چاہا بھی تو تھا۔ اسی لیے تو ان کی منگنی بھی ہو چکی تھی لیکن حادثے نے اس رشتے کو توڑ ڈالا۔ رشتہ قائم رکھنے پر کسی کو مجبور بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سوچتا تھا:
ہر انسان اپنے لیے بہتر فیصلے کا حق رکھتا ہے۔ اگر میری بہن نسیمہ کی نسبت کسی معذور سے طے ہو جاتی تو یقینا یہ میرے لیے بھی نا قابل برداشت اذیت کا سبب ہوتا ۔
منصور احمد کا والد ورزی تھا؟ ایسا درزی ، جس کا زمانہ لد چکا تھا۔ نہ تو وہ نئے زمانے کے ملبوسات بنا سکتا تھا اور نہ اسے نت نئی ایجادات میں کوئی دلچسپی تھی ۔ وہ چاہتا تھا، وہی پرانا زمانہ پلٹ آئے، جس میں سادہ اور کھدر پہنچنے والے سفید پوش لوگ ہوتے تھے۔ جن کی قمیصوں اور شلواروں کی پیمائش اگر ہر بار بدل بھی جاتی تو انہیں کچھ فرق نہ پڑتا تھا۔
وہ لوگ صرف جسموں کو ڈھانپنا اہم جانتے تھے ۔ نیا زمانہ تو اپنے ساتھ کئی طرح کی مشکلیں لے کر آیا تھا، جو اس سادہ لوح درزی کے لیے وبال جان سے کم نہ تھیں۔ فیشن بدلا ، لوگ بدلے، درزی کا طرزِ کاروبار نہ بدل سکا، نتیجتاً کام ٹھپ ہو گیا۔ ایسے حالات میں اُس کے لیے ممکن نہ تھا، کہ وہ منصور احمد کے تھکا دینے والے علاج کے بعد اسے مزید تعلیم بھی دلوا سکتا، مجبوراً اُسے گھر بٹھا دیا گیا۔
کٹی ٹانگ کے زخم جب مند مل ہوئے تو اس نے باپ کے ماسٹر ٹیلر ہاؤس جانا شروع کر دیا جہاں ہفتہ بھر میں ایک آدھ سوٹ سلنے کے لیے آتا تھا ۔ دکان کا چلن نہ ہونے کے باعث جو کام تین ماہ میں سیکھا جا سکتا تھا، اسے سیکھنے میں منصور احمد کو دو سال لگ گئے اور پھر سیکھنا بھی کیا تھا، وہی ایک خاص وضع ، جس میں جدت نام کو نہ تھی ۔ پھر بھی اُس کا والد اکثر یہ کہا کرتا تھا شکر ہے تمہیں کسی قابل بنا دیا ہے۔ اب بھوکے نہیں مرو گے۔ ہنر مند انسان قابل عزت ہوتا ہے۔ مجھے دیکھ لو، اگر چہ لوگ مجھ سے اب اتنا کام نہیں کراتے لیکن ماسٹر صاحب کہ کر مخاطب کرتے ہیں اور جانتے ہو یہ لفظ میری عزت نفس ہمیشہ بلند رکھتا ہے۔ یاد رکھو محنت تمھیں کسی کے سامنے جھکنے نہیں دے گی۔ تھوڑا یا زیادہ رزق حلال کمانا اپنی ترجیح بنائے رکھنا ۔
باپ کی اچانک موت کے باعث دکان کا سارا نظام اس کے ہاتھ میں آچکا تھا۔ اس نے اپنی طبیعت اور تعلیم کی وجہ سے نئے فیشن سے ہم آہنگ ہونے کی پوری کوشش کی جس میں اُسے خاطر خواہ کامیابی ملی اور اب ارد گرد کے لوگ اعتماد کے ساتھ اُس سے لباس سلوانے لگ گئے تھے۔ اس کے باپ کے سکھائے ہوئے ہنر کی قیمت اب معلوم ہو رہی تھی۔ پانچ بہن بھائیوں کا اکلوتا بھائی روزانہ ایک جوڑا بنانے لگا۔ عیدین کے موقع پر کام زیادہ ہو جاتا تو وہ دوسرے درزیوں اور بہن بھائیوں کی مدد سے زیادہ کپڑے بھی سلائی کر لیا کرتا تھا۔ گویا زندگی ایک مخصوص دھارے پر چل نکلی ۔
منصور احمد کی طبیعت میں نہ ختم ہونے والی اداسی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ گانے ایسے سنا کرتا تھا، کہ اچھا خاصا خوش طبع شخص بھی اس کے پاس بیٹھ کر رونے پر آمادہ ہو جاتا اور ایک طرح کی عجیب مایوسی اور بیزاری کا احساس لے کر اٹھتا۔ وہ تین بہنوں میں سے دو کی شادیاں کرا چکا تھا اور سب سے چھوٹی بہن ابھی پڑھ رہی تھی۔ دونوں بھائی بھی پڑھتے تھے۔
اُس کی خواہش اور کوشش تھی ، جو کمی اس کی ذات میں رہ گئی ہے، بہن بھائیوں کی زندگیوں پر اس کا سایہ بھی نہ پڑے ۔ چنانچہ وہ پوری لگن اور کوشش کے ساتھ اُن کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ البتہ کبھی کبھار اسے اپنی معذوری بہت ستانے لگتی تھی۔ خصوصا صبح کے وقت ، جب وہ بیساکھیوں کے سہارے ایک ٹانگ پر چل کر دکان کی طرف آرہا ہوتا تو کئی بڑی چھوٹی عمر کے لوگ سیر کر رہے ہوتے ۔ کچھ تیز قدموں سے چلتے ، کچھ دوڑتے اور جب وہ انہیں دیکھتا تو اپنی کئی ٹانگ سے اُسے نفرت سی ہونے لگتی۔ بے ساختہ اُس کا ایک ہاتھ اپنی کٹی ہوئی ٹانگ کو چھونے لگتا اور دوسرا ہاتھ اور نگاہ ایک ساتھ آسمان کی طرف اُٹھ جاتے اور زبان پر یہ جملہ ہوتا:
”اللہ ان بیساکھیوں سے نجات دے دے“۔
اس کے ہم جماعت جواد نے جب سے اسے بتایا تھا، کہ اب پاکستان میں مصنوعی ٹانگ اتنی صفائی سے لگائی جا رہی ہے، کہ معمولی لنگڑاہٹ کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تبھی سے وہ تیز قدموں کے ساتھ چلنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اب تو اُس کا خواب پورا ہونے میں کچھ ہی وقت باقی تھا۔ پیسے اتنے جمع ہو چکے تھے پر لنگڑاہٹ کے عیب سے خالی مصنوعی ٹانگ لگائی جاسکتی تھی۔ یقینی طور پر ، جب وہ عام لوگوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا تو اس کا رشتہ بھی طے ہو جاتا۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو اپنی بہن بیٹیوں کا رشتہ صاحب روزگار لڑکوں کو دے دیا کرتے ہیں اور پھر وہ دیکھنے میں ایسا تھا، کہ اُس پر اعتبار ہو سکتا تھا۔ لیکن غریبوں کے مشکلات کے دن بہت لمبے ہو جاتے ہیں۔
انہی دنوں ملک میں مہنگائی کا وہ طوفان کھڑا ہوا کہ اللہ کی پناہ، تو اسے مصنوعی ٹانگ کا قصہ خواب ہوتا دکھائی دینے لگا۔ پھر گھریلو اخراجات کا ناقابل برداشت ہو جانا بھی اُس کے لیے ایک نا قابل برداشت تکلیف کا عمل تھا۔ وہ زمانوں سے صبح سے شام تک دکان میں رہنے کا عادی تھا۔ آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا: ایک آدھ گاہک آ جاتا! اکا دکا دوست چلا آتا، پھر بازار کی رونق بجائے خود ایک عظیم نعمت تھی لیکن اب لوگوں کی آمد و رفت مہنگائی نے بہت متاثر کر دی تھی ۔ اس ہوش ربا مہنگائی میں دنوں میں ٹانگ کے لیے رکھے گئے پیسوں میں سے بھی دس ہزار روپے خرچ کر چکا تھا اور پھر یہ بھی اندازہ نہ تھا، کہ مزید کتنا عرصہ اس عذاب میں مبتلا رہنا تھا۔ اس غیر یقینی کے عرصے میں اُس کی مایوسی مزید بڑھتی جارہی تھی۔
عام دنوں میں چلنے سے اُس کے کولہے کی ہڈی سے پسلیاں ٹوٹتی تھیں، اب اخراجات کے پہاڑ جیسے بوجھ سے اُس کی کمر میں درد رہنے لگا تھا۔ اس کیفیت میں اس کے دماغ میں ایک عجیب سا احساس شکست بھی پیدا ہو چکا تھا جس نے اُس کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا تھا۔ بہن بھائیوں کی پڑھائی کا خرچ بھی اُس کے لیے سوہان روح بنتا جا رہا تھا۔ اُسے یہ دُکھ تڑپائے جاتا تھا مگر ان کے سامنے مزید کچھ کہ کر خود کو ہلکا بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ایک دن اُس کے منجھلے بھائی نے اُسے بتایا:
بھائی! حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ کر لیا ہے۔ اور کہ رہے ہیں کہ اس سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔
بھائی کی بات سننے کے بعد اس نے مزید ہزاروں روپے خرچ ہو جانے کا سوچا اور پھر اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔