رقص بسمل (کنیز باہو)

دیوانے کے مزاج میں شہنشاہوں کی سی بےنیازی تھی۔

رقص بسمل، از قلم کنیز باہو

” محبوب فناکے دیس میں ملتا ہے۔“
بھٹی کے پاس دیوانے مزدور کی پکار نےاسے جھنجھوڑدیا، چلتے قدم تھم گئے۔ بھٹی سے نکلتے دھوئیں کے مرغولے میں ہی کھوگئی۔ چہرے پہ شریر سی مسکراہٹ بکھر گئی. قدم ازلی تجسس کی آڑ میں بغاوت کرتے ہوۓ بھٹی کی طُرق پہ مڑگئے۔

”وہ ! آج پھر چھلکن میں ہوگا۔ سیانا کبھی کبھی تو جھلا ہوتا ہے۔“

دیوانہ اپنی بےخودی میں مست تھا اسے نہیں پتا چلا کب مورنی اپنے پیر چھپائے، مبہوت حسن کے ساتھ تمسخرانہ چال چلتے اس کے غریب خانے میں داخل ہوگئی۔

”دیوانے ! آج بھٹی سے زیادہ تم تپ رہے ہو خیریت “۔ دیوانے کے مزاج میں شہنشاہوں کی سی بےنیازی تھی۔ دنیا ٹھوکر پہ رکھے وہ محبت کا من رضائی شہزادہ تھا۔

اس کی طرف متوجہ ہوۓ بغیر بولا:
” آپ پھر یہاں، منع کیا تھانا۔
مورنی سرجھکاتے ہوۓ بولی۔
” محبت “ کی زنجیر کھینچ لاتی ہے مجھے۔
آپ آزاد کردو تو نہیں آؤں گی۔“

دیوانہ مسکراکے بولا: ”میں نے آپ کو قید ہی کب کیا۔ میں تو خود اس کا غلام ہو جس کےقبضے میں کل سماوات والارض ہیں ، یار کا برقعہ اوڑھ رکھا ہے، جس میں سے یار کے سوا کچھ نہیں دکھتا۔ “

”محبت زنجیریں نہیں ڈالتی ، شہدکی مکھی مت بنو۔ شہباز بنو۔ محبت کی پہلی شرط ہی اطاعت ہے. تم منع کرنے کے باوجود اِدھر کا رخ کرلیتی ہو۔ جھوٹی محبت کے غباروں میں دعوٰی کی ہوا بھری ہوتی ہے بس“

یہ سن کے رانی کا دل کسی زلزلے کی زد میں لرزگیا۔ محبت کی ناقدری پہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ٹوٹ گئی۔ غصے کا تاثر دباتے ہوئے گویا ہوئی.

”تمھارا مسئلہ کیا ہے مرد مومن ! میری عزت کرتے ہو۔ میری محبت کی کیوں نہیں۔ کیا میری محبت موت کے بعد معتبر ٹھہرے گی .“

وہ قریب پڑی لکڑیاں اُٹھا کہ عجلت سے بھٹی میں پھینکنے لگا، شعلے بلند ہورہے تھے، سردمہر آنکھوں سے شرارے دیکھنے لگا، جیسے آگ سے اس کا پرانا سنگم ہے۔ اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں، اپنے اندراٹھے الاؤ میں کتنی دیر دہکتا رہا، پھر رانی سے کہا:

”یہ آگ دیکھ رہی ہو ۔خالی بھٹی میں لکڑیاں ہوں، اندھیرا ہوں، آگ نہ ہوتو روشنی کیسے آئے گی۔“

وہ معصومیت سے بولی: ”لکڑی جلےگی، آگ پیدا ہوگی، بھٹی روشن ہوجاۓ گی۔“

” تو اپنی نفسانی خواہشات، ضروریات آگ میں جھونک دو۔ عشق کی بھٹی میں جلے بغیر رب کا نور نہیں ملتا۔”

"صاف کن آئینہ دل از غبار
آتش زن دل ایں بے قرار
اپنے دل کے آئینے کے غبار کو صاف کردے
اور اس بے قرار کے دل میں عشق کی آگ
کو بھڑکا”

میرے بزرگ حضرت سلطان باھو فرماتے ہیں:
”عشق دی آگ ہڈیاں دابالن ، عاشق بیٹھ سکیندے ھو“

آگ سے تو گزرنا پڑے گا۔ میرے لیے جلو گی تو راکھ ہوجاؤ گی، اس کے لیے جلو گی تو کندن بن جاؤ گی۔

رانی کی ضدی طبیعت ، جزباتی بخار کے حصار میں بری طرح جکڑی ہوئی تھی، بہت مان سے ملتجی ہوئی ”میری وفا کا یقین کریں۔ خود کو آپ کا پابند کردیا ہے۔ میرے دل، میری سوچوں پر مجھ سے بڑھ کہ آپ کی حکومت ہے۔“

دیوانے کی آنکھ میں وہی سرد مہری ٹھہر گئی ، چہرہ جلال سے سرخ ہوگیا، کافی دیر گزرنے کے بعد رانی کو مخاطب کیے بغیر بولا

”اللہ کی محبت کے سوا دنیا کی ہر محبت کو فنا ہے۔“
مرجاٶگی میرے لیے۔ اس کے لیے کیوں نہیں مرتی
جس نے زندگی دی ہے۔ وہ تو مائل بہ کرم ہے ۔۔۔۔۔!

جو تمھاری ہی طرف متوجہ ہے کب تم پلٹتی ہو۔ جس کا کھاتی ہو ، پیتی ہو اوڑھتی ہو، جس کی نعمتوں کاحساب نہیں کرسکتی۔ اس کی پرواہ نہیں ۔۔۔۔۔بے وفا۔“

” بی بی ! شہید عشق حقیقی بن جاؤں ، تمھاری موت پہ زندگی بھی رشک کرے۔“

وہ دیوانے کی طرف آخری بار بڑی محویت سے دیکھنے لگی، دلبر کے سخن دلنواں سے نکلے ہیرے چنتی رہتی۔ دیوانہ ہربار محبت کی نئی رمز پڑھا دیتا تھا ۔ اس نے آنکس پیوست کررکھا تھا۔ جس کی وجہ سے کڑواہٹ کے باوجود تلخ حقیقتوں کا گھونٹ صبر سے پی جاتی۔

یہی محبت کے اثاثے بچ گئے تھے اب اس کے پاس جنہیں جدائی کے زمانوں میں خود کو بہلانے کے لیے سنبھال لیتی۔ آج ڈائری کا صفحہ بھی رورہا تھا ، جب درد کے قلم سے اس نے قرطاس پہ محبت کی قیامت لکھی۔ چہرے پہ بکھرے آنسو سمیٹتے ، ماں کے پاس بیٹھ جاکے بیٹھ گئی۔ہردرد ماں سے کہنے کی عادت تھی اسے یہ کیسے بتاتی، اب وہ بڑی ہوگئی تھی. ماں سے باتیں چھپانا سیکھ گئی تھی۔

” اتنی چھوٹی سی مرچ “
اماں یہ دیکھ کتنی ننھی ہے۔ رانی سبزی کے ڈھیر سے مرچ ہاتھ میں پکڑے ماں کو دکھانےلگی ، جیسے کوئی عجوبہ دیکھ لیا ہو۔

اماں نے پھر گھر میں سامانِ تحیر اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ ”دھی رانی کسی بہانے ہنستی تو ہے۔“
رانی کے چہرے پہ مسکراہٹ دیکھنے کے لیے اماں سادگی بھرے شگوفے چھوڑدیتی تھی۔ اماں سادہ لوح تھی ،،،،ایم ۔اے پاس رانی کے چہرے پہ لکھی قیامت ایک معمہ تھا ،،،،

رانی کے دکھ ، سکھ کے نکلتے پروں کا قد نجانے کب ماں کی فہم سے بڑا ہوگیا۔
رانی ماں کے ساتھ چولہے کے پاس بیٹھی تھی۔
جلتی لکڑیوں کا کوئلوں سے راکھ میں بھسم ہوجانے کے منظر نے زہر میں بجھا تیر چھوڑدیا ، اسکے چہرے پہ معنی خیز مسکراہٹ بکھر گئی۔”فنا۔۔۔ ہر وجود کو فنا ۔ آگ اپنے سوا سب کچھ جلا کہ راکھ کردیتی ۔ فقط سینک لینا، روشنی لینا ، پروانے کا ذوق نھیں ۔ پروانہ، دیوانہ ہے۔ کود جاتا ہے آگ میں۔ “

اماں کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا:
” اماں تو سب سے زیادہ کس چیز سے ڈرتی ہے۔“
ہانڈی میں چمچ ہلاتا ماں کا ہاتھ رک گیا۔

”رانی ! جب موت کا فرشتہ مجھے لینے کے لیے کھڑا ہوگا۔ میں ڈروں گی لیکن موت سے نہیں ، تجھے دنیا میں چھوڑ جانے پر ۔ وچھوڑے کی برچھی ماں کے سینے پہ موت کے وقت چلتی ہے ، اسے جان نکلنے سے زیادہ اولاد کا درد ہوتا۔“

رانی چیخ مار کے ماں کے سینے سے لگ گئی ۔
”اماں !تو میری باؤلی ہے بس۔گوڑھیاں گلاں نہ کیا کر سر کےاوپر سے گزر جاتی ہیں۔ تو کہیں نہیں جائے گی۔ تو میرے پاس ہی رہے گی بس۔ میرا اللہ میرا دوست ہے میں اس سے بات کرکے تیرا ویزہ لمبا کرالونگی۔“

رانی شرارتی انداز میں بولی !میں نے تجھ سے ویسے ہی پوچھا تھا تجھے ڈرایاکرو گی پھر۔ ماں کے چہرے پہ اترے حزن وملال کہ رنگ دیکھ کہ سوچنے لگی۔ ”اللہ نے ماں کو بنانے کے لیے مٹی میں کیا خاص عنصر ملایا تھا۔“

رانی غیر معمولی ذہانت کے ساتھ، حساس طبیعت کی مالک لکھاری تھی ۔ فطرت کی پہیلیاں بوجھتی تھی۔ اس کی مشاہدے والی آنکھ کی بینائی بہت روشن تھی

حقیقتوں کی عینک لگائے ،حکمتوں کی فہم کھوجتی، چھلکے میں چھپے مغز کی عرق ریزی کردیتی۔ موسم بدل رہا تھا، ہوائیں بہار کی آمد کی مستی میں رقصاں تھیں ، صحن میں لگے درخت سے پتے جھڑنے لگے۔ سایے گہرے ہونے لگے ۔ موسم یار کے دیس سے اس کا جواب لایا تھا۔

”اللہ سوھنا ماں کو محبت کی مٹی میں گوندھ کر اس میں اپنی رحمت کی پنیری لگادیتا ہے۔ یہ پنیری وفا اور قربانیوں سے پروان چڑھ کہ قدآور درخت بن جاتا ہے۔ جس کا سایہ تاعمر اولاد کو ٹھنڈی چھاٶں میں رکھتا ہے۔“

ڈائری پہ ماں کی محبت کے رنگ بکھیرتے اسکی آنکھیں شرم سے بھیگ گئیں۔ ضمیر کوڑے لگارہا تھا اپنی محبت کی جنونیت میں وہ کس ، کس کی محبت کی ناقدری کرچکی تھی۔ ماں بہت اعلی ظرف ہے، پھر بھی متفکر رہتی تھی ، گھنٹوں اسکے چہرے کا طواف کرکے کھوجتی رہتی۔

”ماں نے میرے لیے خود کوفنا کردیا ایک ماں کی اتنی محبت جسکا احسان میں ساری زندگی نہ اتارسکوں گی شاید۔۔۔۔!“
” میرااللہ !ستر ماؤں سے بڑھ کہ رحیم ہے۔ وہ کیسے سہتا ہے بندے کی جدائی۔ وہ کیسےدیکھتا ہے اپنے بندوں کو تکلیف میں۔“
قرآن کی ایک آیت یاد آگئی جس سے دل رُکتا ہوا محسوس ہوا۔

"انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق ہے ، بیشک اللّٰہ قوت والا ، غلبے والا ہے۔”(الحج ۔ ٦٤)

مجازی خودساختہ محبت کی ٹھوکر نے دل کی زمین زرخیر کردی۔ آنسوؤں نے صحن دل کو غسل دینا شروع کردیا۔ دنیا کی محبت کی پیاس مٹ گئی۔ غلاظتیں جھڑنا شروع ہوگئیں، دل میں حقیقی محبت کا بیچ بودیا گیا۔ اسکے کانوں میں رومی کی بانسری کی گونج سنائی دینے لگی۔

”بشنواز نےچوں حکایت می کند
وزجدائی ھا شکایت می کند“

غم کے بَرنےکے چلنے کی وجہ کئی سوراخ ہوگئے تھے اندر جن سے درد رسنے لگا، تن کےاندر تین سوساٹھ تار چھڑ گئے۔ وجود کے زندان میں قید روح کا رقص بسمل شروع ہوگیا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.