ناجائز محبت ( افسانہ، ازقلم عامر جٹ )

وہ دانہ منہ میں لیتی اِدھر اُدھر دیکھتی اور ایک قدم آگے بڑھتی

سرسبز و شاداب جنگل میں ایک خوبصورت چڑیا کا بسیرا تھا، جنگل کے دوسرے پرندے اس کی خوبصورتی، سریلی آواز، رنگ برنگے پروں اور اونچی اُڑان کے دلدادہ تھے. وہ چڑیا اکثر اُڑان بھرتی اور اونچائی سے دنیا کا نظارہ کرتی، شام کو سارا احوال اپنی ماں کو سناتی. اس کی ماں اسے اکثر کہتی کہ:

"مانا تمہارے پاس حسن ہے، ہواؤں کی لہروں کو شکست دینے کے لیے خوبصورت پَر ہیں، دنیا کے حسن کو دیکھنے کے لیے دلکش آنکھیں اور سنسان جنگلوں میں سُر بکھیرتی آواز ہے. مگر یہ کبھی مت بھولنا کہ یہ سب چیزیں تبھی کارآمد ہیں جب تم اپنی حدود و قیود کا پاس رکھو گی_”

ایک دن وہ چڑیا اپنی ماں کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بولی:

"ماں آج میں انسانوں کی بستی میں گئی اور مجھے اندازہ ہوا کہ میں فضول میں اونچی اُڑان بھرتی رہی اور دنیا کی کھوج میں رہی، اصل دنیا تو وہاں ہے جہاں انسانوں کا بسیرا ہے. خوشحالی، ہریالی، مختلف آوازوں کا سنگم، چمکتی چاردیواریاں، خوشبو سے مہکتے گلدان، رنگدار پھولوں کے باغیچے، خوشنما انسان، ہنستے مسکراتے چہرے اور ہمدرد لوگ. وہاں ایک الگ دنیا ہے، وہاں سب چیزوں کا ایک ساتھ دیکھنا بہت منفرد تجربہ ہے.”

"اووو__ آزاد فضاؤں کی ملکہ__
تم کس دنیا کی بات کر رہی ہو_؟؟
جہاں انسان بستے ہیں اس دنیا کی؟
کتنی معصوم ہو تم___
تم نے انسانوں کی بستی میں سب کچھ تو دیکھ لیا مگر کیا وہاں انسان بھی بستے دیکھے ہیں؟؟

اس دنیا میں موجود کچھ آثار بتاتے ہیں کہ وہاں کبھی انسان بستا تھا مگر اب وہاں انسان نما بہروپیے ہیں_ کب، کہاں کیسے روپ اختیار کر لیں کوئی نہیں جانتا_

جنگل کی لومڑی کی طرح مکار ہیں، بندر کی طرح لالچی، شیر کی طرح گھمنڈی، بھیڑیے کی طرح لوٹ مار کرنے والے، سانپ کی طرح کسی کے بھی بل میں گھسنے والے، گدھے کی طرح احمق، بچھو کی طرح ڈسنے والے اور گدھ کی طرح لاشوں کو بھی نوچ نوچ کھا جانے والے.

ہمارے جنگل میں گدھ کا ایک خاص روپ ہے، اس کی پہچان مشکل نہیں مگر انسانوں کی بستی میں موجود گدھ، روپ انسانوں والے رکھتے ہیں جبکہ خصلت گدھ والی، ان سے بچنا ناممکن ہے.”
معصوم چڑیا کو اس کی ماں اکثر سمجھاتی_

"ماں تو بھی نا___
اس ویران جنگل کے بوسیدہ گھونسلے میں بیٹھی دانشوری کی باتیں کرتی رہا کر__
یہاں بیٹھ کر کسی کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کر لینا درست بات نہیں، کبھی آؤ میرے ساتھ تمہیں انسانوں سے ملواؤں. رائے بدل جانے کے بعد تمہیں یہ گھونسلا قید خانہ محسوس ہو گا اور بےقراری کے عالم میں اڑتی ہوئی وہاں نا پہنچی تو کہنا_”
معصوم چڑیا بات مکمل کرتی ہوئے دوبارہ اڑ گئی__

وہ چڑیا اکثر ایک گھر کے گارڈن میں جاتی جہاں طرح طرح کے پھول، مختلف پودے، رنگ برنگی کرسیاں اور شیشے کے بڑے مرتبان اسے اپنی طرف کھینچتے_ اکثر اسے وہاں کھانے کے لیے بھی کچھ نا کچھ مل جاتا اور گارڈن میں ہی موجود فوارے کے پانی سے وہ بھیگتی اور دوبارہ اپنی پرواز پر نکل جاتی_ چڑیا کو اس جگہ سے محبت ہو چکی تھی جو اب دیوانگی کا روپ اختیار کر رہی تھی_

چڑیا کی ماں اکثر اس کی غیر موجودگی سے پریشان رہتی ہے اور بار بار اسے یہ محاورہ سمجھاتی کہ "کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا” مگر نئی جگہ کی محبت نے اسے اندھا کر رکھا تھا_

ایک روز معصوم چڑیا اسی گارڈن کی چاردیواری پر بیٹھی تھی کہ اسے گارڈن میں کچھ دانے دکھائی دیئے، چڑیا دانے کھانے کے لیے اڑتی ہوئی گارڈن میں پہنچی اور دانے کھاتی آگے بڑھنے لگی_ وہ دانہ منہ میں لیتی اور گردن اوپر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھتی، شاید اسے اپنی ماں کی بات یاد آ رہی تھی کہ انسان اب گدھ بن چکا ہے. مگر جب وہاں کسی کو نا دیکھتی تو وہ خوش ہوتی کہ میں ٹھیک تھی، میری ماں فضول میں انسانوں کو بدنام کر رہی ہے.

وہ دانہ منہ میں لیتی اِدھر اُدھر دیکھتی اور ایک قدم آگے بڑھتی پھر دانہ منہ میں لیتی اور اِدھر اُدھر دیکھتی اور آگے بڑھتی_ تقریباً دس پندرہ قدم ہی آگے بڑھی تھی، حسب عادت اس نے اِدھر اُدھر دیکھنے کے لیے گردن اٹھائی، اس کی نظر ایک دھاگے پر پڑی، وہ دھاگہ کس چیز سے منسلک تھا دیکھنے کے لیے اس نے دھاگہ کو بغور دیکھا_

وہ دھاگہ ایک بڑے سنہری پنجرے سے جڑا ہوا تھا، جسے چڑیا نے پہلی بار دیکھا_ سنہری رنگ نے اسے مزید پر تجسس بنایا، وہ دانے کھاتی آگے بڑھنے لگی_

کچھ قدموں کے فاصلے پر ہی پہنچی تھی کہ دھاگہ ٹوٹنے کی آواز آئی اور سنہری پنجرہ اسے گھیرتے ہوئے زمین پر آ گھرا، پنجرہ زمین پر گرنے سے پیدا ہونے والی آواز نے معصوم چڑیا کی گھبراہٹ میں اضافہ کیا_

معصوم چڑیا گھبرائی اور وہاں اڑنے کی کوشش کی مگر پنجرے سے ٹکرا کر پھر زمین پر گر گئی، اس نے دوسرے سمت میں پھر کوشش کی مگر وہ دوبارہ زمین پر تھی_ بار بار کی کوشش کے باوجود پہلی بار چڑیا کے ساتھ ایسا ہو رہا تھا کہ وہ اڑنے سے قاصر تھی، پَر اور سر زخمی ہونے کے بعد وہ زمین پر پڑی پھر پھڑا رہی تھی_
قہقہے لگاتے دو لڑکے ایک طرف سے نمودار ہوئے اور ایک نے دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا_

"یس__ ہمارا تجربہ کامیاب رہا اور اب یہ خوبصورت چڑیا میری قید میں ہے”
دوسرے نے جواباً کہا_
"ہم جو چاہتے ہیں حاصل کر لیتے ہیں، اب سے یہ اس گارڈن کی شان بڑھائے گی_”

معصوم چڑیا زمین پر پڑی ماں کی اس بات کو یاد کر رہی تھی، "کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا” اور خود کو کوس رہی تھی کہ انسانی بستی سے میری محبت ناجائز تھی_ انسانوں پر یقین کرنا میری کم عقلی اور اپنی حدود سے بغاوت تھی، تبھی تو مجھے یہ سزا ملی_ آزادی کی قدر قید کے بعد ہی ہوتی ہے مگر آزاد فضاؤں میں رہنے کے لیے ہمارے اوپر نافذ کچھ اصولوں کو ہم جبراً غلامی کہتے ہیں جبکہ وہی اصول ہی ہماری آزادی کے محافظ ہوتے ہیں_

کسی چیز سے محبت کرنا فطری عمل ہے مگر اپنے اصول و ضوابط کی بغاوت کر کے کرنے والی ہر محبت ناجائز ہے_ وہ معصوم چڑیا وہاں قید تھی، اسے پنجرے میں کھانے کو ہر چیز مل رہی تھی مگر کوئی بھی چیز اس کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی_ چند دنوں بعد پنجرے میں ایک بے جان جسم پڑا تھا جو کبھی ہواؤں کی لہروں کو شکست دے کر آسمان کی خوبصورتی کا اہم کردار تھا_

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.