محبتیں ہجرت نہیں کرتیں (افسانہ، ازقلم: ماہ نور خان ماہی

یہ امن کی فضا کے دنوں کی کہانی تھی۔

محبت ایک ایسا احساس جو ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہے۔ اسی احساس کی ایک کہانی نے محبت اور احترام کی فضاء میں تب جنم لیا جب دل اور دماغ سرحدوں اور تقسیم کی ہنگامہ خیزی سے بہت دور تھے۔

جب لوگوں میں دوستی اور انسانیت کا رشتہ تھا اور دلوں میں ہمدردی موجود تھی اور صیح معنوں میں بھائی چارے کی فضا قائم تھی۔ یہ تب کی کہانی تھی جب شرما جی اور قریشی صاحب ایک ہی سائیکل پر ایک ساتھ اپنی اپنی عبادت گاہوں کی طرف جایا کرتے تھے۔

جب سردار جی کی حویلی کی پچھواڑے میں جھولا ڈال کر گاؤں کی ہندو ، مسلم ، سکھ سب لڑکیاں جھولا کرتی تھیں اور جب صحیح معنوں میں اپنے دوست، اپنی بھائی، اپنے پڑوسی کی عزت، جان اور مال کو خود پر حرام سمجھا جاتا تھا۔

یہ امن کی فضا کے دنوں کی کہانی تھی۔ پاکستان اور انڈیا سے پہلے جب وہ سرزمین برصغیر کے نام سے جانی جاتی تھی تو تب کئی محبت اور دوستی کی کہانیاں وہاں موجود تھیں جو تقسیم کے ساتھ تقسیم ہو گئیں لیکن دلوں میں رچی بسی محبت کبھی تقسیم نہیں ہو سکی۔

اکشے شرما اور سلیم قریشی بچپن کے یار تھے۔ دونوں کا یارانہ اتنا گہرا تھا کہ چوٹ ایک کو لگتی تھی تو درد دوسرے کو ہوتا تھا۔ دونوں کا سارا بچپن ایک ساتھ گاؤں میں بھاگتے دوڑتے ، گرتے پڑتے ، ہنستے کھیلتے گزرا تھا اور یہاں تک کہ وہ پھر جوانی کی دہلیز پر پہنچ گئے۔

میٹرک دونوں نے ساتھ کیا تھا اور پھر سلیم قریشی اپنے باپ کے کپڑے کی فیکٹری سنبھالنے لگ گیا اور شرما ودیش اعلیٰ تعلیم کے لیئے چلا گیا۔ شرما اور قریشی ہاؤس بلکل آمنے سامنے تھے۔ شرما خاندان دولت اور رتبے میں قریشی خاندان سے کافی بڑا تھا لیکن محبت ایسی تھی کہ ہر فرق کو مٹا ڈالا تھا۔

اکشے شرما تعلیم حاصل کر کے لوٹا تو دونوں خاندانوں کی مشاورت سے دونوں دوستوں کی شادی ایک ہی دن طے پائی گئی تھی۔ سردار جی کی حویلی گاؤں کی سب شادیوں کے لیئے استعمال ہوا کرتی تھی۔

اس دن سردار جی کی حویلی کا احاطہ ایک الگ ہی منظر اور رنگ لیئے ہوئے تھا جہاں ایک طرف اکشے شرما کی شادی کے پھیروں کے لیئے منڈپ بنا تھا تو بلکل اسی کے ساتھ سلیم قریشی کے نکاح کی ساری تیاری کی گئی تھی۔

ایک ہی دن دونوں جگری یاروں کی شادی ہوئی تھی اور پھر اللہ کی کرنی کے دونوں کے ہاں اولاد بھی ایک ہی دن ہوئی تھی۔ اکشے کمار کو اوپر والے نے نعمت سے نوازا تھا۔ اس کے ہاں پیارے سے بیٹے نے جنم لیا تھا جس کا نام پریم بھرے دل والے اکشے شرما نے پریم شرما رکھا تھا۔

سلیم قریشی کی گود میں خدا نے اپنی رحمت ڈالی تھی جسے پا کر سلیم قریشی بہت خوش ہوا تھا اور بڑے پیار سے اس ننھی پری کا نام عائشہ رکھا تھا۔

سمے گزرتا گیا اور عمریں اپنی سرحدیں ٹاپ گئیں۔ شرما جی اور قریشی کے کالے بالوں میں سفیدی چمکنے لگی. جوان جسموں نے بڑھاپے کا سفر شروع کر دیا اور ایک دوسری نسل نے جوانی کی سرحدوں کا عبور کر لیا۔

وقت گزرا تھا ، حالات بدلے تھے لیکن شرما جی اور قریشی صاحب کی دوستی نہیں بدلی تھی۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دونوں کے بچوں کی بھی آپس میں گہری دوستی ہو گئی۔ عائشہ اور پریم نے اپنا سارا بچپن ایک ساتھ گزارا تھا اور پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد بھی ان کی دوستی میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ کچھ یوں ہوا کہ دونوں نے ایک اور جذبے سے شناسائی پائی اور وہ جذبہ تھا محبت۔ عمر کا تقاضہ تھا یا برسوں کا ساتھ کہ دوستی نے محبت کا روپ اختیار کر لیا بنا اس بات کی پرواہ کیئے کہ دونوں کے مذہب الگ تھے۔

عائشہ قریشی کی دل موہ لینے والی ہیزل آنکھیں جو فقط پریم کو تکتی رہتی تھیں اور پریم شرما، ایک ہندو لڑکا جس میں خوبصورت دل تھا جو صرف عائشہ کو دیکھ کر دھڑکتا تھا۔ وہ دونوں اپنے گاؤں کی گلیوں میں بھاگتے دوڑتے مشترکہ مستقبل کے اپنے معصوم خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ تبدیلی کی ہواؤں نے پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر طرف ہندوستان کے بٹوارے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ یہ بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر ہونا تھا۔

عائشہ اور پریم جنہیں لگتا تھا سب کچھ اچھا ہے۔ وہ ایک خواب میں جی رہے تھے کہ وہ جب اپنی محبت کا اعلان کریں گے تو لوگ ان کو سجدہ کریں گے ، گاؤں کے لوگ ان پر پھول برسائیں گے اور ان کے ماں باپ ان کا منہ ماتھا چوم لیں گے لیکن یہ بس ایک خواب ہی تھا اور خوابوں کا حقیقت سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔

ہندوستان کے لوگوں کے اندر بغاوت سر اٹھانے لگی تھی۔ آپسی بھائی چارہ ختم ہونے لگا تھا اور اپنے ہی اپنوں کے دشمن بن بیٹھے تھے۔ بغاوت کی یہ فضا بہت عرصے سے سرگرم تھی لیکن عائشہ اور پریم کے گاؤں تک بدقسمتی سے ان کی محبت کے عروج کے دنوں میں پہنچی تھی۔
مسلمان گلی کوچے میں الگ وطن کا نعرہ لگاتے ہوئے پائے جاتے تھے اور مسلم لیگ لوگوں کے جوش اور ولولے کو بڑھا رہی تھی۔

مسلمانوں کی زبان پر ایک ہی بات تھی ”مسلمان ہے تو مسلم لیگ میں آ“ اور مسلمان جوش و خروش سے اپنی الگ سرزمین کے حصول میں لگ گئے تھے۔ عائشہ نے سنا کہ مسلمان ہندوستان کے بٹوارے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جائیں گے تو اس کا کلیجہ مٹھی میں آ گیا تھا۔ اسے لگا زندگی یہیں رک جائے گی لیکن پھر قریشی صاحب کے الفاظ نے اس کے اندر نئی روح پھونک دی تھی۔

” کچھ بھی ہو جائے عاشو! ہم اپنی زمین چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ یہ بٹوارہ زمینوں کا نہیں دلوں کا ہے اور میں دلوں کے بٹوارے کے حق میں نہیں ہوں“ قریشی صاحب کو عشق تھا اس جگہ سے جہاں ان کا جنم ہوا تھا جہاں ان کے آباؤاجداد کا گھر تھا۔ وہ چھوڑ کر کبھی نہیں جا سکتے تھے۔

حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین ہوتے جا رہے تھے اور عائشہ اور پریم کے محبت بھرے دل خود کو بہلا رہے تھے کہ ہجرت نہیں ہو گی مگر ہائے رے ان دو روحوں سے فاصلے پر کھڑی قسمت قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔ ہندوستان کی فضاؤں نے اس قہقہے کو سنا تھا اور جان لیا تھا دلوں پر قیامت اترنے کا وقت قریب ہے۔

برصغیر کے لوگوں نے بھائی چارے اور انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی تھیں۔ مذہب کے نام پر بٹوارہ ہو رہا تھا لیکن مذہب کے لیئے انسانیت کا قتل نہیں رک رہا تھا۔ جہاں جس کے ہاتھ جو آتا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کی جان ، مال اور عزت کو ایک دوسرے پر حرام سمجھتے تھے وہ دھرا دھر قتل کرنے ، دولت لوٹنے اور عزتیں پامال کرنے میں مصروف تھے۔ کسی ہندو کے شر سے نہ کوئی مسلمان بچا تھا اور نہ مسلمان کے شر سے کوئی ہندو۔

ہندو مسلم فساد اتنا طول پکڑ گیا کہ قریشی صاحب کو ہجرت کے بارے میں سوچنا ہی پڑ گیا کیونکہ وہ جان چکے تھے ہندوستان میں رہتے ہوئے ان کی جان اور عزت مخفوظ نہیں ہے سو فیصلے کی گھڑی آ پہنچی۔

پریشان دلوں اور فکروں میں ڈوبے دماغ کے ساتھ تیرہ اگست کی شام کو قریشی خاندان نے افطار کیا تھا۔ قریشی صاحب نے ہندوستان چھوڑنے کی ساری تیاری کر لی تھی بس باقی مسلمانوں کی طرح وہ بھی منتظر تھے ایک ختمی فیصلے کے جب انہیں بتایا جاتا کہ پاکستان جو ایک خواب تھا وہ تعبیر پا چکا ہے اور پھر رات گیارہ پچاس پر مصطفی علی ہمدانی کی آواز ریڈیو سے گونجی ”یہ آل انڈیا لاہور ہے ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجیے “ مسلمانوں کے دلوں میں ایک بےچینی سی اس آواز نے بھر دی تھی اور ہر کوئی بس منتظر تھا اگلے اعلان کا جس میں ختمی فیصلہ سنایا جانا تھا اور پھر دس منٹ گزرے تھے کہ اعلان ہوا ” یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ آپ کو پاکستان مبارک ہو“۔

بےچین دلوں میں جوش کا شعلہ جل اٹھا تھا اور جسموں میں پھرتی آ گئی تھی۔ قریشی صاحب کے اشارے پر گھر کے سبھی افراد متحرک ہوئے اور پہلے سے باندھا ہوا ضروری سامان اٹھایا اور گھر کے پچھلے راستے کا انتخاب کیا نکلنے کے لیئے۔

عائشہ کی ماں نے اس کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ کھینچا۔ وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح کھنچتی چلی گئی تھی اور اس پل عائشہ کو لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم سے روح نکالی جا رہی ہے۔ تنگ گلی سے جاتے ہوئے عائشہ نے پلٹ کر دیکھا جہاں پریم منڈیر پر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اور آنکھوں کے رستے ایک دریا تھا جو بہہ رہا تھا۔ عائشہ نے بےاختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور گلی کے آخری کونے تک پہنچتے ہوئے اس نے اپنے محبوب کے چہرے کو حفظ کر لینا چاہا تھا۔

جدائی کی بہت سی قسمیں ہیں مگر ان میں سب سے خطرناک قسم وہ ہے جس میں دوبارہ ملاقات کا امکان نہ ہو۔ دونوں نے اس وقت کا انتظار کرنے کا عہد کیا جب تنازعے ختم ہو جائیں گے اور سرحدیں ایک بار پھر مل جائیں گی تو پھر سے دو دل ملیں گے اور ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لیئے پا لیں گے۔

قریشی خاندان نے اپنا سب کچھ چھوڑا اور پاکستان کی طرف سفر شروع کر دیا۔ آنسوؤں سے بھرا الوداع ان کی روحوں میں گونج رہا تھا۔ قریشی صاحب نے شرما جی سے طوفان کے گزر جانے کے بعد دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا تھا اور دو پریمیوں نے اس وعدے پر زندگی گزارنے کا کٹھن فیصلہ کر لیا تھا۔

کئی دنوں کے مشکل سفر کے بعد جب وہ لوگ پاکستان پہنچے تو آنکھوں میں خوشی کے آنسو ٹمٹمانے لگے تھے۔ صرف ایک عائشہ تھی جسے لگ رہا تھا اس کی روح مر چکی ہے اور وہ اب زندہ لاش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

وقت گزرتا گیا اور منتظر دل بس حالات ٹھیک ہونے کا انتظار کرتے رہے تھے۔ ملکی کشیدگیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
دن ، مہینے اور سال بیت گئے تھے لیکن سرحد کے پار رہتے محبوب کی طرف سے کوئی پیغام نہیں ملا تھا۔ عائشہ کے بہن بھائی شادیاں کر کے اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے تھے صرف ایک عائشہ تھی جس کی جسمانی اور نفسیاتی صحت دن بدن گرتی چلی جا رہی تھی اور 1960 میں ایک دن عائشہ کا چھوٹا بھائی جو ڈاکخانے میں ملازم تھا ایک خط کا لفافہ لایا تھا جس پر عائشہ قریشی نام درج تھا۔

عائشہ نے سنا اس کے نام خط آیا ہے اور وہ بھی ہندوستان سے تو جیسے مریض کو شفا مل گئی تھی اور پھر اگلے دس منٹ میں قریشی ہاؤس میں صف ماتم بچھ چکا تھا۔ ایک قیدی نے زندگی سے رہائی پا لی تھی اور کچھ بوسیدہ خط اس قیدی کے کمرے میں بکھرے پڑے تھے۔

خاکی لفافے میں لاتعداد خطوط تھے جو پچھلے دس سال سے پاکستان آ رہے تھے لیکن خطوط پر گھر اور شہر کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکخانے میں ہی رہ جاتے تھے۔ ڈاکخانے کا انچارج بھلے مانس آدمی تھا جس نے سارے خطوط اکٹھے کر کے عائشہ قریشی کے نام ایک ہی لفافے میں رکھ چھوڑے تھے اور جب مہینہ پہلے عائشہ کے بھائی نے ڈاکخانے میں نوکری شروع کی تو تب اسے وہ خطوط بھرا لفافہ ملا تھا اور کل پھر سے بھارت سے جب خط آیا تو عائشہ کا بھائی چونک گیا تھا اور تب وہ جان گیا یہ سارے ہجر زدہ خطوط کسی نے دل کے خون سے اس کی بہن کے نام لکھے تھے۔

ہر خط میں لکھا تھا عائشہ تم مل جاؤ ورنہ پریم مر جائے گا اور آخری خط میں لکھا تھا۔ عائشہ تمہارا پریم مر گیا۔ بٹوارہ سرحدوں کا ہو تو کٹنا ہمیشہ دلوں کو پڑتا ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.