میک اپ کی دکان ( از قلم ~ اقصیٰ نادر )
یہ آخری الارم تھا جو اس نے یونیورسٹی جانے کیلئے لگا رکھا تھا۔

صبح کے نو بج چکے تھے ، دبیز پردوں سے چھن کر آتی چند آوارہ دھوپ کی کرنیں اسکے سنہری بالوں کے حسن کو مزید خیرہ کر رہی تھیں۔ تیکھی ناک پہ سونے کی لونگ اور اس پہ چمکتا ننھا سا ہیرا ان آوارہ کرنوں کی تمازت میں بہک کر اسکے چہرے کو مزید پرکشش بنائے دے رہا تھا۔
ریشمی لباس میں وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر پرسکون نیند کی آغوش میں تھی جب نو بجے کا الارم اسکے سرہانے تلے رکھے بیش قیمت فون پر بجنے لگا۔ یہ آخری الارم تھا جو اس نے یونیورسٹی جانے کیلئے لگا رکھا تھا۔ کروٹ بدلتے ہوئے اس نے تکیے تلے سے فون نکالا اور الارم بند کر کے پھر سے آنکھیں موند گئی۔
ذہن میں یکدم جھماکا ہوا تھا کہ آج تو اسے تاج سے ملنا تھا ۔ پچھلا پورا ہفتہ اسکی طبعیت ناساز تھی جس کے باعث وہ یونیورسٹی نہیں آسکی تھی ۔ جب زہرا نے اسکی عیادت کو جانے کے واسطے اسکے گھر کا پتا دریافت کیا تو اس نے فرصت سے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ اب اتنی بھی بیمار نہیں کہ زہرا اسکے گھر چلی آئے۔
زہرا بے بس ہو گئی تھی۔ پڑھائی سے دل اُچاٹ ہو گیا تھا اور نتیجتاً اس نے بھی پچھلا پورا ہفتہ داؤد گروپ کے ساتھ پارٹیاں انجوائے کرتے ہوئے گزارہ تھا۔ اگر وہ گھر میں رہ کر داؤد ، شام اور باقی دوستوں کو بلاتی تو بابا جان کو پتا چل جاتا تو منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان سب نے داؤد کے گھر اکھٹے ہونے کو ترجیح دی تھی۔
اس کی سب سے زیادہ شام سے بنتی تھی ، پر تکلف ڈنر کے بعد سگریٹ اور مئے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ کب بہک جاتی اسے پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ بعض اوقات تو اسے لگتا تھا کہ وہ بھی طوائف ہی ہے بس فرق اتنا تھا کہ وہ طوائف خانے میں نہیں رہتی تھی جہاں عورت کو عورت نہیں بکاؤ مال سمجھا جاتا ہے۔
جب داؤد اور شام وہاں سے ہو کر آتے تو اس جگہ کو شاہی محلے کے نام سے یاد کرتے ہوئے انہی عورتوں کو غلیظ الفاظ میں یاد کرتے تو وہ تڑپ جاتی تھی۔ وہ تو اس عورت کی بھی عزت کرتی تھی جس کا تعلق اس جگہ سے تھا کیونکہ اسکے بقول عورت طوائف خانے پہ رہے یا محل میں ، ہر حال میں عزت کی حقدار ہے اور جو مرد ان دونوں میں تفریق کرتے ہوئے ان کی عزت کرے وہ مرد ہی قابلِ قدر نہیں۔
وہ جانتی تھی کہ عورت کے بیسیوں روپ ہیں کبھی وہ ماں ، تو کبھی بیوی ہے ، کبھی طوائف خانے پہ بیٹھی بیوپارن ہے تو کبھی محلوں میں رہنے والی امیر ترین عورت ہے۔ مگر وہ سمجھتی تھی کہ وہ غلیظ سے غلیظ روپ میں بھی ہو تو تب بھی قابلِ عزت ہے مگر کیا ہے نا ، انسان سبھی اچھے ہوتے ہیں مگر انکے بنائے ہوئے اصول اچھے نہیں ہوتے یہ معاشرہ خود لذت اٹھانے کیلیئے ساری عمر ایسی عورت کو غلیظ کہنے کو تیار ہے !.
وہ بیچاری بھی کیا کرتی اکاؤنٹنگ میں داخلہ لے تو لیا تھا مگر پڑھ وہ صرف تاج کے سر پہ رہی تھی۔ سر کو جھٹکتے ہوئے وہ اٹھی کہ دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ معصومہ بی بی اندر داخل ہوئیں۔ استری شدہ کپڑے ہینگر میں لٹکائے، بیڈ پر رکھنے کے بعد زہرا کی تزئین و آرائش کا سامان ترتیب سے سنگھار میز پر چننے لگیں۔
نہا دھو کر چست پینٹ پر کھلے گریبان والی سفید رنگ کی ریشمی شرٹ پہنے وہ اب سنگھار میز کے سامنے کھڑی تیزی سے ہاتھوں کو چلاتے ہوئے نفاست سے آئی لائنر لگانے کے بعد سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگا رہی تھی۔ کانوں میں آویزے اور بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے میں مقید کیے اس نے بیگ کاندھے پر لٹکائے ، بالوں میں سیاہ چشمہ اٹکا کے خود کو آخری مرتبہ آئینے میں دیکھا تو بے اختیار ہی ایک لقب اسکے ذہن میں بجلی کی کوند کی مانند لپکا "ہونہہ ۔ میک اپ کی دکان ".
کہنے والے نے بہت غور سے دیکھنے کے بعد ہی زہرا کو یہ لقب دیا تھا جسے سن کر وہ سر تا پاؤں جھلس کر رہ گئی تھی اور نتیجتاً اس لڑکے سے اس نے خوب وحشیانہ انداز میں مار کٹائی کر ڈالی تھی۔ خبر اڑتے اڑتے ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر تک جا پہنچی تھی وہ تو بھلا ہو بابا جان کے وسیع ذرائع کا جس نے گلو خلاصی کروانے میں صرف آدھ گھنٹہ لیا تھا۔
ذرا سے ڈانٹ کے بعد پورا گراؤنڈ جو کوئی نئی تازی خبر سننے کے انتظار میں تھا ، ہنستی ہوئی زہرا کو دیکھ کر وہاں سے کھسک گیا تھا۔ طویل راہداری کے بعد وہ ہیل کی ٹک ٹک کے ساتھ زینے طے کرتی ایک شان سے نیچے اتری اور مام کو دور سے ہی ہاتھ کے اشارے سے سلام یا خدا حافظ کہتی باہر کو نکل آئی ۔ مام کو بھی اسکی کہاں کوئی پرواہ تھی۔ ہفتے میں صرف ایک دن ہی وہ جلدی اٹھتیں تھیں اور وہ تھا بدھ کا روز جب انہیں اپنے زیرِ نگرانی سکول کا ایک چکر لگانا ہوتا تھا ورنہ باقی کا ہفتہ تو شاید ہی وہ سب ڈنر کر پاتے تھے۔
تلخ مسکراہٹ کو نگلتے ہوئے وہ پورچ میں نکل آئی جہاں گاڑی اسٹارٹ کیے ڈرائیور مؤدب انداز میں ہاتھ باندھے اسی کے انتظار میں تھا۔ دور سے ہی اسکی نازیبا جھلک دیکھتے ہوئے اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ آگے بڑھ کر کھول دیا تھا۔ زہرا ادائے بے نیازی سے آگے بڑھتی ہوئی گاڑی میں جا بیٹھی تھی۔
ڈرائیور نے اپنی سیٹ سنبھال کے گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے سڑک پہ ڈال دیا تھا جس کی منزل شہر کی مشہور اور مہنگی یونیورسٹی میں سے ایک تھی۔ بیس منٹ مختلف سڑکوں پہ گاڑی دوڑانے کے بعد وہ دس بجے کے قریب وہ یونیورسٹی کی حدود میں داخل ہو چکی تھی۔ پہلا لیکچر چھوٹ گیا تھا مگر اسے پرواہ نہیں تھی ، تاج جو تھی نا اسے سبھی کچھ سمجھانے کیلئے !. کلاس کے باہر بیٹھی وہ تاج کا انتظار کر رہی تھی جب اسے وہ دور سے آتی دکھائی دی ۔
سیاہ کرنکل کپڑے کے عبائے میں ملبوس چہرے کو اچھے سے ڈھانپے، بیگ کاندھے پہ لٹکائے ، رجسٹر سینے سے لگائے جسے اسے بیگ میں رکھنے کا بھی وقت نہ ملا تھا ، ہیل کی ٹک ٹک کے ساتھ وہ پروقار انداز میں اسی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ آنکھیں زہرا کو دیکھ کر چمکنے لگیں تھیں اور چہرے پر مسکراہٹ کے باعث وہ سکڑ گئیں تھیں۔ وہ جوں جوں قریب آرہی تھی توں توں اسکا عالیشان عبایا ایک مخصوص خوشبو زہرا کے گرد ہالہ بنا رہا تھا ایسی خوشبو جو تاج کا خاصہ تھی۔ تاج ۔ تاج بانو جو ہر وقت عبائے میں ملبوس رہتی تھی۔
اسکے جسم کے صرف دو ہی اعضاء تھے جنہیں آج تک یونیورسٹی والے دیکھ سکے تھے ۔ پہلی اسکی دبیز آنکھیں جن پہ گھنی پلکیں بھی ہمہ وقت سایہ فگن رہتی تھیں اور دوسرے تھے اسکے ہاتھ ۔ مخروطی انگلیوں میں جابجا سونے کی پتلی سی انگوٹھیاں ان کا حسن بڑھا رہی ہوتی تھیں۔ جب کبھی وہ تاج کے ہاتھوں کو لکھتا ہوا دیکھتی تو اسکے ہاتھوں کو ہی تکے جاتی تھی یہ بھول جاتی تھی کہ وہ اسی کو سمجھانے کے واسطے سوال لکھنے میں مصروف ہے۔ ہاں یونیورسٹی کو چھوڑ کر صرف زہرا ہی تھی جس نے اسکا چہرہ بھی دیکھ رکھا تھا۔
وہ کسی اپسرا سے کم نا تھی۔ سفید رنگت پہ ابھرتے گال جن پہ اس نے بلش ان لگا رکھا ہوتا تھا، خوبصورت بھرے بھرے ہونٹ جن پہ روز ایک نئے رنگ کی لپ اسٹک براجمان رہتی تھی۔ مگر تاج کو زہرا سے زیادہ خوبصورت بنانے والی ایک اضافی شے تھی اور وہ تھی اسکا تل۔ وہ تل اسکی دائیں آنکھ میں تھا۔ مکمل حسن کے ساتھ جب وہ نقاب الٹ کر اپنے بال درست کرتی تو زہرا تب تک اسے یک ٹک دیکھے جاتی جب تک تاج دوبارہ نقاب نہ اوڑھ لے۔ مگر اسے ایک بات سمجھ نہ آتی تھی کہ تاج جب ہر وقت نقاب میں رہتی ہے تو پھر میک اپ کیوں کرتی ہے؟ جبکہ وہ تو میک اپ نہ نمائش کیلئے کرتی ہے اور نا ہے ستائش کیلیئے!.
یہی سوال جب اس نے دریافت کرنا چاہا تو تاج مسکرا دی تھی۔ ” پگلی ! تزئین و آرائش جب خود کیلیئے کی جائے تو راحت کا سامان ہوتی ہے مگر جب اسے دوسروں کیلیئے کیا جائے تو فتنہ و فساد برپا ہوگا”. زہرا چند لمحوں کیلیئے سکتے میں رہ گئی تھی کیونکہ جس ماحول میں وہ اٹھتی بیٹھتی تھی وہاں یہ سب بہت عام تھا مگر شاید وہ جس تہذیب کا حصہ تھی وہاں کیلیئے یہ فتنہ و فساد کا سامان سمجھا تھا۔
تاج کی بھینی سی خوشبو نے اسکے خیالی دنیا میں پکتے پلاؤ کی آنچ کو دھیما کر دیا تھا ۔ وہ اٹھ کر تاج سے ملنے کے بعد اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی تھی۔ طویل راہداری میں چلتے ہوئے آتے جاتے لوگ آج تاج سے سلام دعا کے بعد اسکا حال احوال بھی دریافت کررہے تھے وہ تو شاید کہیں تھی ہی نہیں۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کہیں غائب ہو گئی ہو اور غائبانہ آنکھ سے سارا منظر دیکھ رہی ہو ۔ تاج کیلیئے پورا ڈیپارٹمنٹ عزت سے پیش آتا تھا کئی مرتبہ تو زہرا کے سامنے ہی لوگ کہہ جاتے تھے کہ "میڈم دوستی تو ہم مزاج سے کرتیں”.
ایسی باتیں تاج کبھی بھی مسکرا کر نہیں سنتی تھی بلکہ دوستی پہ ایک چھوٹا سا لیکچر دے کر آگے بڑھ جاتی تھی۔ آج بھی جب اسے کوئی عزت نہ ملی تو اس نے منھ پرے کر لیا اور ریلنگ کے پاس کھڑی ہو کر اوپر افق کو تکنے لگی۔ مطلع صاف تھا ، دھوپ کی تمازت سے عمارت دہک رہی تھی۔ کوریڈور میں گرمی اپنے عروج پر تھی۔ تاج واپس آئی اور بنا کچھ کہے اسکا بازو پکڑ کر چل پڑی۔
"تاج ایک بات پوچھوں ؟”.
"ہاں ڈئیر پوچھو ".
تمہارے خیال میں یہ سب لوگ تمہاری اتنی عزت کیوں کرتے ہیں؟ جب کہ تم تو ہر ایک کو ڈانٹ دیتی ہو !”.
تاج جو تیز تیز قدم بڑھا رہی تھی ۔ اسکا سوال سن کر اب رفتار دھیمی کر گئی تھی۔
"کیونکہ زہرا مجھے لگتا ہے کہ لباس ہی وہ پہلی شے ہے جو ہر ذی روح کو عورت کی عزت کرنے پر مجبور کرتا ہے. شاید اسی لیے یہ سب مجھ سے عزت سے پیش آتے ہیں ". چلتے چلتے وہ دونوں اب گراؤنڈ میں نکل آئیں تھیں جہاں کل والا ٹولہ آج پھر منڈلی بنائے وہیں بیٹھا تھا جہاں کل زہرا کی ان سے منھ ماری ہوئی تھی۔ سیڑھیاں اتر کر وہ اب گراؤنڈ میں داخل ہو رہی تھیں جب انکے کانوں میں مردانہ آواز پڑی۔
"اور آگئی ہماری میک اپ کی دکان” ۔
ہر طرف سیٹیوں کے علاؤہ بے ہنگم آوازوں کا شور برپا ہو چکا تھا۔ حالانکہ زہرا کی ہی طرح وہاں پہ موجود تمام لڑکیاں نک سک سے تیار تھیں مگر اسکی سمجھ سے باہر تھا کہ وہ سب اس سے جھڑپ کیوں چاہتے تھے۔ اس نے سختی سے مٹھیاں بھینچ کر اپنا غصہ قابو کرنا چاہا تھا جبکہ چہرہ غصے کے باعث سرخ ہو چکا تھا۔ تاج نے آگے بڑھ کر زہرا کا بازو تھامنا چاہا مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ زہرا پلٹی اور دیوانہ وار بھاگتے ہوئے وحشیانہ انداز میں اس لڑکے پر پل پڑی تھی۔ کل کا واقعہ از سرِ نو دہرایا جا رہا تھا۔
گراؤنڈ میں یکا یک تماشائیوں کی بھیڑ لگ گئی تھی۔ پہلے تو وہ زہرا کے تھپڑ اور مکوں کا لحاظ کرتا رہا مگر پھر وہ بھی برداشت کے آخری دہانے پہ پہنچ کر اگے بڑھ آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اسکا ہاتھ زہرا کے چہرے پر اپنا نشان ثبت کر جاتا تاج نے آگے بڑھ کر ایک قوت سے زہرا کو پیچھے کھینچ لیا تھا۔ لہجے میں رعب بسائے وہ ایک ادا سے بولی تھی ” چھوڑ دو اسے ” ۔ اور سامنے موجود حریف نے اگلے ہی لمحے زہرا کا بازو چھوڑ دیا تھا۔
بھیڑ میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی یوں لگ رہا تھا کہ جیسے جنگل میں کہیں شیر آدھمکا ہو ۔ پہلا نشانہ درست سمت میں جاتا دیکھ کر اب وہ مجمعے سے مخاطب تھی "آپ سبھی لوگ جائیں یہاں سے”. اور مجمع چھٹنے لگا تھا۔ جھگڑا طول نہ پکڑ جائے وہ زہرا کو گھسیٹتی ہوئی سیدھ میں چل رہی تھی ، ہجوم سے دور جہاں وہ سکون سے بیٹھ کر اسے پرسکون کر سکے ۔ زہرا کے اندر کا زہر نکل چکا تھا ۔ ہجوم چھٹتے ہی وہ پرسکون ہو کر اب تاج کے شانہ بشانہ چلنے لگی تھی ۔ درخت کے سائے میں بیٹھ کر تاج نے پانی کی بوتل زہرا کو پیش کی ۔
زہرا کا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔ غٹا غٹ پانی چڑھانے کے بعد اسے اب بھوک کا احساس ستانے لگا تھا۔ تاج اسکی کیفیت دیکھتے ہوئے اسکے ساتھ کیفے ٹیریا چلی آئی تھی جہاں اچھے سے ناشتہ کرنے کے بعد زہرا نے تاج کو چائے کا آرڈر دینے کو کہا تھا۔ تاج والٹ سے پیسے نکال کر پیمنٹ کیلیئے اٹھ گئی تھی ۔ آج کا ناشتہ تاج نے اپنی طرف سے کروایا تھا ورنہ روزانہ بل زہرا خود ادا کرتی تھی۔ تاج جلدی میں اپنا والٹ میز پر ہی بھول گئی تھی جسے کھلا پڑا ہوا دیکھ کر زہرا نے اسے بند کرنے کا سوچتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا ۔ والٹ میں بہت سے کارڈز میں تاج کا شناختی کارڈ بھی رکھا تھا ۔ تاج کے گھر کے پتے کی بابت متجسس ہوتے ہوئے اس نے شناختی کارڈ باہر نکال لیا جہاں پتے میں درج تھا۔
"گلی نمبر چھ ، مکان نمبر 44، شاہی محلہ والڈ سٹی ، اولڈ ٹاؤن نزد آزادی چونک ، لاہور. ”
اور وہ سکتے کے عالم میں رہ گئی تھی۔