کرم جلی ( افسانہ، تحریر فوزیہ کنول ، لاہور )

میری نگاہیں نڈر، بے باک، بے دھڑک اس کو گھورے جا رہی تھیں.

کیا ہے یہ محبت؟ میٹھی نرم ہوا جیسی مستی جو روح کو گدگداتی ہے تو انسان کو خوشی کے مزے سے آشنا کرا دیتی ہے ۔ اپنے ارد گرد پھیلی خوشبو کے احساس نے مجھے گردن موڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا.

میری نگاہیں نڈر، بے باک، بے دھڑک اس کو گھورے جا رہی تھیں. مجھے کسی کی پرواہ نہ تھی. میرے خیالات عرش معلی کو چھو رہے تھے لیکن یہاں اس خواہش کو پورا کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل نہ تھا. یہاں میں گونگی بحری اور معصوم تھی. میں کوئی بھی اوچھی حرکت کر کے کسی کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی تھی.

کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں ناں وہ لوگ جن کی خواہش دل سے نکلی اور لبوں تک آتے آتے پوری ہوجاتی ہے. شاید وہی لوگ مقدر کے سکندر کہلاتے ہیں.

یہ سوچ کر میرے دل سے ایک آہ سی نکلی، میری نگاہیں عرش معلی کی جانب اٹھیں اور کہنے لگیں کہ اے پروردگار یہ پر وقار شخصیت کا حامل شخص آج میرا ہوتا تو کیا ہوتا۔

مگر کہتے ہیں نا کہ کبھی کبھی تمام خواہشوں پر ایک خواہش سبقت لے جاتی ہے سب خواہشیں سب خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور طاق دل پر فقط ایک دیا خواب بن کر جلنے لگتا ہے. پلکوں کے کناروں کو بس ایک روشنی چھوتی ہے اور ہر طرف رنگ پھیلے لگتے ہیں۔

میں نے اسے کسی اور کو سونپا تو نہ جانے کتنے قہر ٹوٹے میرے دل پر، جانے کیسے چھن جانے دیا میں نے اسے؟ میں نثار کی بچپن سے طلب گار تھی۔ اسے بے حد چاہتی تھی. وہ بھی مجھے اسی طرح چاہتا تھا ایک دوسرے کو چھپ چھپ کر دیکھتے بچپن کی کھیل کود میں پتہ ہی نہ چلا کہ کب ہم نے جوانی میں قدم رکھا اور ایک دوسرے سے ملنے کے حیلے بہانے ڈھونڈنے لگے.

اسی دوران نثار کے ابو کی طبیعت خراب رہنے لگی اور اس نے سکول چھوڑ کر لاہور ایک کمپنی میں کام کرنا شروع کردیا مگر وہ جب بھی گھر آتا تو ہمارے گھر کا چکر ضرور لگاتا چاہے جو بھی ہوجائے.

ایسے ہی دن گزرتے رہے اور نہ جانے کتنے ہی حسین لمحات کے پنے میری زندگی کے کیلنڈر میں گر گئے. اس دوران اس نے کئ بار مجھ سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرنا چاہا مگر میں بات کو سنا ان سنا کردیتی.

پھر ایک دن نثار ہمارے گھر آیا. وہ واپسی کی تیاریوں میں تھا تومیں نے بہت ساری ہمتیں جھٹاکر بات کہہ دی کہ اے میرے جسم و جاں کے مالک مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں مگر مجھے ڈر لگتا ہے کہ کسی کو علم نہ ہوجائے اور میں آپکو کھو نہ دوں. نثار نے محبت سے میرا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا کہ ہمیں کوئی جدا نہیں کرسکتا۔

اور کتنا مشکل ہوتا ہے ناں“ انتظار کا ایک لمحہ بھی مانو کانٹوں کی سیج پر ننگے پاٶں رقص کرنا آج میں بھی انہی لمحات سے گزر رہی تھی آخر کار میرا انتظار احتتام کو پہنچا اور وہ رات آگئی جسے چاند رات کہتے ہیں.

اب مجھے صبح کا سورج طلوع ہونے کا انتظار تھا. لوگ کہتے ہیں کہ غم کے ماروں کو نیند نہیں آتی مگر یہاں تو خوشی کے مارے نیند نہیں آرہی تھی. ابھی ان سوچوں سے نکل نہ پائی تھی کہ دور کسی مرغ کی بانگ نے صبح ہونے کی نوید دی. میری نظریں تو اپنے چاند کے چہرے پر ٹکی کی ٹکی ہی رہ گئی تھیں. آج نثار اتنا خوبصورت لگ رہا تھا کہ مجھے ایسا لگنے لگا جیسے آسمان کا چاند اتر کر میرے گھر میں آ گیا ہو۔

تجھکو دیکھا تو پھر اس کو نہ دیکھا ہم نے
چاند کہتا ہی رہا میں چاند ہوں، میں چاند ہوں۔

یہ محبت بھی کتنی پیاری اور شگفتہ چیز ہے ناں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے لیے دل میں جگہ بن جاتی ہے اس ایک خواہش کے لیے ایک خواب ایک تمنا کے لیے باقی سب کچھ غیر ثانوی سا ہو جاتا ہے بے معنی سا ہو جاتا ہے ہم سب نے مل کر عید منائی مل کر کھانا کھایا بہت سی باتیں کیں.

عید ختم ہوئی تو نثار واپس لاہور اپنے کام پر چلا گیا لیکن اب ہماری محبت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو چکی تھی ۔ایک دن میں اسے چھیڑنے لگی کہ نثار تم تو بالکل ہی پاگل ہو چکے ہو تو وہ کہنے لگا کہ محبت پاگل پن کا ہی نام ہے خرد مندی کا سکہ یہاں نہیں چلتا ہوش مندی کا سبق اس میں کام نہیں آتا جو فہم و حراست کی بات کرتے ہیں وہ دانا محبت نہیں کرتے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جناب مان گئے کہ آپ محبت کے دیوتا ہیں.

سردیوں کے دن تھے رات کو ہم نے ڈرائی فروٹ پارٹی کی اور کمبل میں بیٹھ کر ڈرائی فروٹ کھاتے رہے کہ اچانک لائٹ چلی گئی یہ میری زندگی کی کتاب کے سب سے حسین پنے تھے لیکن مجھے یہ خبر نہ تھی کہ ان پنوں کو دوبارہ پلٹنا میری قسمت میں نہ ہوگا یہ ملن میرا آخری ملن ہوگا اگر مجھے یہ خبر ہوتی تو میں کبھی نثار سے جدا نہ ہوتی اس ملن کو اپنی قسمت بنا لیتی ۔کھانے کے بعد نثار کے ابو جان کہنے لگے کہ کہاں اندھیرے میں گھر جاؤ گے یہیں سو جاؤ اور سارے بچے دوسرے کمرے میں جا کر سو جائیں.

ابھی ہم باہر صحن میں ہی نکلے تھے کہ بادل زور سے گرجا، بجلی چمکی اور تیز بارش ہونے لگی۔ بارش رکنے کے بعد ہم سب دوسرے کمرے میں جانے لگے تو باہر گھپ اندھیرا تھا. میں نے نثار کا ہاتھ پکڑا تھوڑا آگے چل کر چھوڑ دیا. دوسرا کمرہ صحن کے دوسری جانب تھا ہم چل رہے تھے کہ اچانک میرا پاؤں پھسلا میں گرنے لگی تو نثار نے مجھے اپنی بانہوں کا سہارا دیا اور گرنے نہ دیا.

پھر بھی میں پگلی جانے کیسے نہ سمجھ پائی کہ یہ میرے لیے ہی بنا ہے. ہم کمرے میں چلے گئے وہاں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے ساری رات ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ لے کر عہدو پیماں کرتے رہے۔

صبح ہوئی تو ہمارا دل ایک دوسرے سے بچھڑے کو نہیں چاہ رہا تھا لیکن ہمیں بچھڑنا تھا۔جاتے ہوئے نثار کی نظریں بار بار میرے چہرے کا طواف کر رہی تھیں میری بے تاب آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور پلکوں کی دہلیز پار کر کے گلابی رخساروں سے پھسلتے ہوئے دامن میں سمٹ گئے.

اس پر نثار کہنے لگا کہ تم اگر ایسے کرو گی تو میں کیسے جا پاؤں گا میں نے مسکرا کر نثار کو رخصت کیا مگر مجھے ایسا لگنے لگا کہ جیسے نثار اپنی مٹھی میں میری جان لیے جا رہا ہے اس کے جانے کے بعد میں بے جان سی ہو جاؤں گی پہلے تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا پہلے بھی تو ہم کئی بار ملے تھے اور کئی بار بچھڑے تھے شاید تقدیر مجھے کچھ سمجھانا چاہ رہی تھی کہ یہ بچھڑنا ہمیشہ کا بچھڑنا ہے اور یہ ملن آخری ملن ہے کاش مجھے پتہ ہوتا تو میں نثار کو اپنی آنکھوں میں چھپا کر آنکھیں بند کر لیتی یا اپنے دل میں بٹھا کر دل کا دروازہ بند کر لیتی۔ نثار لاہور چلا گیا ۔ دو ماہ بعد نثار کے ابو کی ڈیتھ ہو گئی۔

اور ٹھیک دو ہفتے بعد یہ فیصلہ طے پایا کہ نثار کی شادی اس کی چچا زاد سے کر دی جائے اور اسے کہا گیا کہ یہ تمہارے ابو کی آخری خواہش تھی. حالانکہ ایسا بالکل نہ تھا اسے مجبور کیا گیا کہ تمہارے ابو کی یہ آخری خواہش ہے جسے پورا کرنا تمہارا فرض ہے اب نثار فرض اور پیار کے درمیان کھڑا تھا۔

نثار نے اس شادی سے بالکل صاف انکار کر دیا مگر میں نے نثار سے بات کی اور اسے سمجھایا کہ تمہیں یہ شادی کرنی چاہیے اور اپنا گھر بسانا چاہیے. نہ جانے کیسے کر دیا میں نے یہ سب؟ دو ہفتے کے اندر اندر نثار کی شادی ہو گئی.

دو ہفتے کے اندر اندر ہی میری خوشیاں تباہ و برباد ہو گئیں. نہ چاہتے ہوئے بھی تنہائیاں میری ہمسفر بن گئیں، نہ چاہتے ہوئے بھی میں نےاپنی آرزؤوں پر بند باندھ لیا میرے سب خواب دھرے کے دھرے رہ گئے اور طاق دل پر فقط ایک خواب دیا بن کر مسکرانے لگا کہ خدا اسےخوش رکھے بس.

اور محبت تو ہے ہی قربانی کا نام. ورنہ کہاں چاہتی تھی میں کہ میری چوکھٹ کا دیا کسی اور کی دہلیز کا چراغ بنے, کہاں گوارا تھا مجھے کہ اپنی آرزؤوں کا تاج محل لٹتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتی اور کہاں چاہتی تھی میں کہ میری تمناؤں کو کوئی اس طرح پیروں تلے روندے۔
یہ تو دل ہی ہے جو اتنا دھنی ہے جسے چاہے نواز دے سرخرو کر دے اور جسے چاہے نگاہوں سے گرا دے مٹی میں رول دے. یہی سوچتے سوچتے میں نے ہولے سے اپنی آنکھیں موند لیں اور نہ جانے کب نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.