کہانی کار (ازقلم: شبانہ مریم مسلم)

"جاوید احمد ! آپ کے پرستار آپ کے لکھے ڈراموں کو بے حد شوق سے دیکھتے ہیں۔

نیشنل ٹی وی چینل کے پروگرام کہانی سنو کے سیٹ پر بیٹھا وہ شخص بہت ہی سادہ لوح انسان تھا۔ میزبان وقفے پر جاتے ہی اپنا حلیہ درست کرنے میں لگ جاتی تو سیٹ پر کھڑے میک اپ آرٹسٹوں میں سے ایک نوجوان اس کی طرف بھی آ جاتا.

مگر وہ بار بار کنگھی پاؤڈر کرنے سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ تیسری بار اس نے اپنے سیاہ کرلی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے صاف منع کر دیا ۔ میزبان نے اس کی سادگی پر مسکراتے ہوئے داد دی تھی ۔

"جاوید احمد ! آپ کے پرستار آپ کے لکھے ڈراموں کو بے حد شوق سے دیکھتے ہیں۔ تو وہ سب آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کے پوچھے گئے بیشمار سوالات میں سے ہم نے کچھ سوالات چنے ہیں”۔

میزبان نے مسکراتے چہرے سے کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے مہمان کو مخاطب کیا۔ دونوں بازوؤں کو سینے پر باندھے وہ صوفے کی ٹیک سے پشت ٹکائے بیٹھا جواباً اس کی کہی بات پر محض مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا۔

” جاوید احمد کا بچپن کیسا گزرا اور زیادہ تر کس کے ساتھ؟”۔ ” بچپن میں بہت بیمار ہونے کی وجہ سے ماں نے مجھے نانی کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ کچھ دن کی بیماری جیسے ان کے اور میرے درمیاں ہمیشہ کی دوری کا بہانہ بن کر آئی تھی۔ سچ کہوں تو اگر کبھی گھر واپس بھی چلا جاتا تو نانی کی واپسی پر مجھے ان کے ساتھ روانہ کر دیا جاتا۔

"ایسا کیوں ؟”۔ میزبان نے اپنی طرف سے پوچھا ۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے مسکرا کر جیسے بات کو گول گھمانے کی کوشش کی۔
"مطلب آپ نے کبھی پوچھا نہیں؟”۔

میزبان نے مزید اصرار کرتے ہوئے پوچھا۔ "میرے بغیر وہ خود کو تنہا گردانتی تھی "۔ "میرے کئی بار پوچھنے پر بولی کہ ماں کو بہت زیادہ بچوں کا کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ بیمار بھی ہو جاتی ہے اور نانی بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ان کی یہ بات مجھے اتنی خوشی دیتی کہ میں خوشی سے خلاؤں میں اڑنے لگا تھا آہستہ آہستہ میں بھی ان کے ساتھ کا عادی ہو چکا تھا۔

"بچپن کی کوئی خواہش بتائیں ؟”۔ میزبان نے ایک اور سوال کیا۔
"اپنی ماں کے ساتھ رہنا میری سب سے بڑی خواہش تھی” ۔
"تو پوری ہوئی؟”۔ میزبان نے ترکی بہ ترکی پوچھا۔

"جب نانی ماں خدائے یکتا کے حکم سے دنیا چھوڑ گئی تو میں اداس تو ہوا تھا لیکن ماں کے ساتھ رہنے پر بہت خوش بھی ہوا تھا”۔
"آپ کی پسندیدہ شخصیت کون ہے ؟”۔ میزبان لیپ ٹاپ اسکرین پر لائیو آنے والے سوالات پر نظریں جمائے بولی ۔
"انڈسٹری میں ؟”۔

"جو بھی آپ کے دل کے نزدیک ہو”۔ سوال واضح کیا گیا ۔
"نانی ماں” ۔ وہ مختصر بولا ۔

"ماں کیوں نہیں ؟”۔ میزبان نے جیسے کریدنے کی کوشش کی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئی تھی۔

"انسان کی فطرت ہے کہ بچھڑنے والے کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے خاص طور پر اس کو جو ہم سے بے پناہ محبت کرتا ہے”۔

"آپ نے اپنے نئے ڈرامے میں ایک ماں کے کردار کو بہت ناانصاف دکھایا ہے جس پر بہت سے لوگوں نے اعتراض بھی کیا ہے”۔ کیوں! ایک ماں اپنے دو بیٹوں میں اتنا فرق کرتی ہے جب کہ دونوں اس کے سگے بیٹے ہیں”۔ میزبان نے سوال کے دوران لفظ سگے پر زور دیا۔

"دیکھیں ایک ماں اپنی اولاد کی دشمن نہیں ہوتی لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی مائیں ہیں جو اولادوں میں فرق رکھتیں ہیں۔ بس وہی حقیقت دکھائی گئی ہے۔

ساجد کی ماں بھی ان ہی میں سے ایک ہے جو حسن پرست عورتیں ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ساجد کو خود سے وہ اس لیئے دور رکھتی ہے کیونکہ اس کی رنگت سانولی ہے اس کے برعکس ماجد کو توجہ دیتی ہے کیونکہ اس کی رنگت صاف ہوتی ہے لیکن ساجد یہ بات بہت دیر سے سمجھ پاتا ہے۔

ماں جب بھی ماجد کے لیئے کچھ بناتی تو اسے بھول جاتی ۔اس کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا خیال رکھا جاتا مگر ساجد کو اپنی ہر شے ، ہر کام کا خیال خود رکھنا پڑتا۔ ماں کی دیکھا دیکھی بہنوں پر بھی وہی رنگ چڑھا۔ ایک عمر تک اسے یہ ساری باتیں تکلیف دیتیں رہیں مگر پھر اس طرح زندگی جینے کی عادت ہوگئی تو خود بھی ہر چیز پر پہلا حق ماجد کا سمجھتا، اگر کچھ بچ جاتا تو اس کے نصیب میں آتا جس پر بھی وہ شکر گزار رہتا۔ جاوید احمد نے کہانی کے ذریعے معاشرے کے صنفی امتیاز پر روشنی ڈالی جو موجود حالات کی تلخ ترین حقیقت تھی۔

"آپ نے اپنے کردار کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو اتنی باریکی سے پیش کیا ہے کہ ہر دوسرے گھر میں دیکھنے والا انسان اسے اپنی کہانی سمجھ رہا ہے” ۔ میزبان نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا۔

"ہمارے معاشرے کی بہت چھوٹے مسئلے لیکن سب سے گہرے زخم بھی یہی ہوتے ہیں جو انسان کی روح تک اثر کر جاتے ہیں اور وہ زخم اچھے وقتوں میں بھی نہیں بھرتے بلکہ پیپ بن کر رستے رہتے ہیں کیونکہ دیوار میں لگی کیل اگر نکال بھی دی جائے تو اس میں وہ سوراخ ہمیشہ رہتا ہے۔

"جی بلکل جب مائیں اس طرح اولاد کو نظر انداز کریں گی تو ظاہر ہے وہ بچہ ساری زندگی دماغی طور پر بیمار پڑ جاتا ہے”۔
میزبان نے اس کے پیغام کو مزید واضح الفاظ میں اپنی شائقین تک پہچایا۔

"پہلے ماجد اور ساجد میں شکل و صورت کی وجہ سے فرق کیا جاتا کیوں کہ ماجد اپنے رنگ روپ اور لباس کا حد سے زیادہ خیال رکھتا تھا بمقابل اسکے ساجد ایک بے سلیقہ انسان تھا۔ محبت اور توجہ انسان کو اندر تک نکھار دیتیں ہیں”۔

” جاوید صاحب آپ نے بلکل ٹھیک کہا ۔ ساجد کے پاس محبت تو کیا توجہ بھی نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کیسا دکھتا ہے”۔ اس نے اپنے کھلے بالوں کو انگلیوں سے سلجھایا پھر کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"لیکن ساجد کا کردار تو ہماری انڈسٹری کے ایک ہینڈ سم ہیرو نبھا رہے ہیں”۔ میزبان اسکرین پر ڈرامے کا پوسٹر دیکھ کر جیسے اچانک بولی۔

"جی یہ کردار کی ڈیمانڈ تھی کہ وہ بہت خوبصورت ہے لیکن دکھتا نہیں ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
زندگی کی بے ترتیبی ، رشتوں کی توجہ اور پیسے کی کمی ان میں سے سرِ فہرست ہیں ۔
ماجد ایک سرکاری ملازمت کرتا تھا جہاں اسے ایک تگڑی تنخواہ کے ساتھ گاڑی بھی دے دی گئی تھی۔

ساجد ایک پرائیویٹ نوکری کرنے والا بے ڈھنگا انسان تھا جو اپنی چند ہزار روپیوں کی تنخواہ گھر والوں کو دیتا ہے تو خود پورا مہینہ آفس تک جانے کو بھی کرائے کے لیئے پریشان رہتا ہے ۔

"تو کیوں دیتا ہے بھئی”۔ میزبان کے لہجے میں کردار کے لیئے فکر نمایاں ہوئی۔
"کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کی توجہ چاہتا ہے خاص طور پر اپنی ماں کی اور دیکھیں اسے اس بات کے اجر میں خدا بیشمار کامیابیوں سے بھی تو نوازتا ہے "۔ جاوید احمد نے جواباً مسکرا کر کہا تو بھی مسکرا دی۔
"ویسے آپ نے اس کا اختتام بہت ہی خوبصورت لکھا۔ ماں بیٹوں کی شادی کے فوراً بعد ساجد کو الگ کر دیتی ہے تو ماجد اپنی بیوی کو لے کر خود انہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس طرح انہیں اپنے بیٹے ساجد کی محبت کا احساس ہوتا ہے۔
مجھے تو بہت متاثر کیا ساجد کے کردار نے جب وہ اپنی ماں کو اکیلا پا کر ان کے پاس واپس چلا آیا "۔

میزبان نے ایک بار پھر اس کے لکھے اسکرپٹ کی تعریفوں کے پل باندھ لئے جواباً جاوید احمد نے مشکور انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوئے ان کا اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔
"یعنی وقت بدل جائے تو رشتے بھی بدل جاتے ہیں "۔

میزبان نے پروگرام ختم ہونے کے بعد بھی گفتگو جاری رکھی ۔
"وقت بدلتا رہتا ہے لیکن انسان کہاں بدلتے ہیں وہ جیسی فطرت لے کر پیدا ہوتے ہیں ویسے ہی رہتے ہیں” ۔
اس نے اپنے چہرے پر بظاھر ایک مسکان سجا کر سوچا تھا۔

کاش ایک تخلیق کار کے بس میں ہوتا کہ وہ جس طرح اپنی لکھی کہانی کے اختتام پر تمام کرداروں کو سدھار دیتا ہے ویسے ہی اپنے آس پاس کے رشتوں کو بھی بدل سکتا تو شاید ماں مجھے بھی ارشد بھائی کے برابر پیار کرتی۔
خدا ہی جانتا ہے کہ کہانی تو میرے رب نے لکھی تھی لیکن اختتام میرے قلم نے طے کیا تھا.

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.