اک طرفہ (از قلم: فریحہ سرفراز)
اور وہ چلی گئی اس کے ساتھ جسے وہ بے پناہ چاہتی تھی

آج ان کے رابطے کو سات ماہ گزر چکے تھے وہ بے حد اک دوسرے کو چاہنے لگے وہ جانتی تھی اسے کسی صورت اسکے گھر والے اس کا نہیں ہونے دیں گے اور پھر اس نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ لیا۔
اور وہ چلی گئی اس کے ساتھ جسے وہ بے پناہ چاہتی تھی چند دنوں کے بعد جب اس کے گھر والے اسے ڈھونڈتے ہوئے پولیس کے ساتھ اس تک پہنچے تو اسے اور اس لڑکے کو وہاں سے سیدھا پولیس اسٹیشن لے جایا گیا جہاں اس لڑکی کا اک بیان اس لڑکے کی زندگی بنا بھی سکتا تھا اور تباہ بھی کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اک طرف اس لڑکی کو غلط بیان دینے کے لئے اکسایا جا رہا تھا کہ وہ پولیس کو یہ کہے کہ وہ لڑکا اسے زبردستی اغواہ کر کے لے گیا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے وہ جسےاس کے علاہ کسی اور کا تصور ہی مار دیتا تھا وہ کیسے اسے بائیس سال کے لئے سزا کاٹنے کے لیے چھوڑ دے جس کا وہ حقدار بھی نہیں ۔۔۔۔۔
مگر ہر سزا خود کے لیے رکھتے ہوئے اس لڑکی نے اس کا ساتھ دیا یہاں تک کے اس کے باپ نے اس کے پاؤں پڑتے ہوئے کہا جو میں نے تمہیں کہا وہی کہنا ہے تم نے ۔۔۔۔۔۔مگر ہزار دباؤ کے بعد بھی اسی کا ساتھ دیتی ہوئی اسے چھوڑ آئی وہ ۔۔۔۔۔۔۔
تاکہ وہ خوش رہ سکے ہر دکھ اپنے ساتھ باندھے اسے آزاد کر آئی کیونکہ اس کے باپ نے اسے کہا تھا وہ اسے کچھ نہیں کہے گا بلکہ اس لڑکے کو ہی مار دے گا وہ جانتی تھی اس کا باپ چپ نہیں بیٹھے گا اس لئے ہر گناہ اپنے سر لیتی وہ اپنے گھر اپنے ماں باپ کے ساتھ چلی گئی یہ سوچے بنا کے وہ اسے بھی مار سکتے ہیں لیکن وہ اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے چلی گئی اسے چھوڑتے ہوئے .