حرام کا ٹیگ (از قلم بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد)

شادی کے چھ سال تک جب صفورہ کی کوکھ کوئی پھول نہ کھلا سکی

محب اللہ ایک سرکاری ادارے میں بطور اکاؤنٹنٹ ملازمت کرتے تھے۔ ان کی شادی خانہ آبادی اپنی پھوپھی کی بیٹی صفورہ سے ہوئی تھی۔ دونوں میاں بیوی یک جان ایک قالب میں ڈھل گئے تھے۔ ان کی ازدواجی زندگی مثالی اور قابلِ رشک تھی۔ بہت خوشگوار زندگی گزر رہی تھی.

لیکن شادی کے چھ سال تک جب صفورہ کی کوکھ کوئی پھول نہ کھلا سکی تب دونوں نے ماہر گائناکالوجسٹ سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے مختلف جانچ و گہرے معائنہ کے بعد رپورٹ دی کہ بچہ ہونے کی توقع نہیں ہے کیونکہ بچہ پیدا کرنے کے لیے جس جرثومے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ناپید ہے۔

محب اللہ نے اپنی شریکِ حیات سے کہا: ”اگر تم رضامندی ظاہر کرو تو Test Tube Baby کا بندوست کر لیتے ہیں۔“ صفورہ نے جھکی نگاہوں کے ساتھ مضبوط لہجے میں کہا: ”نہیں صاحب! میں اس غلط اقدام کے لیے تیار نہیں ہوں۔“

گل گوتھنے روئی کے گالوں جیسے ، قلقاریاں مارتے روتے منہ بسورتے بچوں کی تمنا بھلا کسے نہیں ہوتی؟ ان ہنسوں کے جوڑے کو بھی بچے کی شدید خواہش تھی۔ سوچا کہ خاندان میں سے کسی کا نومولود بچہ گود لے لیا جائے۔ مگر محب نے یہ خیال رد کر دیا کہ خاندان میں سے کسی کا بیٹا، بیٹی گود لینا نرا دردِسر ہے۔ کچھ نہ کچھ دخل اندازی اور بدمزگی ہوتی ہی رہے گی۔

اس سے بہتر ہوگا کہ کسی لاوارث یتیم و یسیر بچے کی سرپرستی کر لی جائے اور اسے ہی اپنی سگی اولاد کا درجہ دے دیا جائے۔ صفورہ نے بلاجھجک اپنے عزیز شوہر کی رائے کا خیر مقدم کیا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ کسی معتبر یتیم خانے سے ایسے بچے کو گود لیا جائے جس کا کوئی ولی وارث یا دعوے دار نہ ہو۔

خوب خاک چھاننے کے بعد وہ مطلوبہ یتیم خانہ کھوجنے میں کامیاب ہوگئے۔ کئی بچوں کو دیکھنے ، پرکھنے کے بعد ایک ایسے بچے کا انتخاب کیا گیا جسے کوڑا چننے والے نے یتیم خانے میں جمع کروایا تھا۔ یہ نومولود لاوارث بچہ انتہائی مخدوش حالت میں یتیم خانے لایا گیا تھا۔ محب اللہ نے ضروری کاغذی کارروائی کی۔ اچھی طرح مطمئن ہونے کے بعد بچے کو صفورہ کی سونی گود میں ڈال دیا گیا۔

وہ شاداں و فرحاں گھر لوٹ آئے۔ کسی دیندار نے انہیں مشورہ دیا کہ لڑکے کا بیوی سے پردہ ہوگا۔ سو ان کا اگلا ہدف بچے کو صفورہ کا محرم بنانا تھا اس مقصد کے لیے صفورہ کی بڑی بھابھی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ کافی پس و پیش کے بعد وہ نومولود بچے کو دودھ پلانے پر راضی ہو ہی گئیں۔ خیر سے رضاعت کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ بچے کا عقیقہ کر کے اس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ برتھ سرٹیفیکیٹ میں سرپرست کے خانے میں محب اللہ نے اپنا نام درج کروایا۔

طے پایا کہ بچے کو کبھی نہیں بتایا جائے گا کہ وہ کسی نامعلوم کی اولاد ہے۔ ضرورت کے وقت اسے یہی بتایا جائے گا کہ اس کی دم توڑتی ماں اسے ہمیں سونپ کر گئی ہے۔ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے اپنا گھر بار ، دوست رشتے دار حتی کہ شہر ہی چھوڑ دیا دور کہیں اور جا بسے۔

صفورہ نے بچے کی پرورش وتربیت میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ عبداللہ کی صورت میں دونوں میاں بیوی کے ہاتھ سنہرے بالوں والا گڈا آگیا تھا۔ دن رات اسی کے لاڈ پیار میں بسر ہوتے۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ عبداللہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہی صفورہ کو بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کی دھن سوار ہوگئی۔ پڑھے لکھے جوان خوبرو اور برسرِ روزگار لڑکے کے لیے رشتوں کی لائن لگ گئی۔

محب اللہ کی نگاہِ انتخاب ڈاکٹر فارعہ پر جا ٹھہری جو سرجن صبیح رحمانی کی نورِ نظر تھی۔ چھان بین ، تفصیلات کے بعد فریقین کی باہمی رضامندی سے شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ سارے انتظامات مکمل ہوگئے۔ شادی سے قبل گھر کے لان میں نکاح کی تقریب منقعد کی گئی تھی۔ نکاح کے وقت نکاح خواں نے ولدیت کا خانہ پُر کرنے کے لیے باپ کا نام پوچھا تو محب اللہ لمحے بھر کو سٹپٹا کے رہ گئے۔

ہونے والے سمدھی صبیح رحمانی نے انہیں ٹہوکا دیا، تو محب اللہ نظریں چرا کر ہچکچاتے ہوئے بولے، ”حضرت! سمجھئے یہ میرا بیٹا ہے، آپ میرا نام لکھ دیجیے۔“ ان کی ہچکچاہٹ ، لرزتے لہجے نے نکاح خواں کو ہی نہیں حاضرینِ محفل کو بھی شک و شبہ میں مبتلا کر دیا تھا۔

مولوی صاحب خفگی سے بولے: ”میاں! یہ نکاح نامہ بھرا جا رہا ہے۔ اس میں سمجھنے والی کیا بات ہے؟ سیدھے پیرائے میں بیان کیجیے کیا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہے؟“

محب اللہ کے کشادہ ماتھے پر پسینہ کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ جیب سے رومال نکال کر ماتھا پوچھنے لگے۔ ان کی خاموشی کس طوفان کا پیش خیمہ تھی؟

”عبداللہ میرا لے پالک ہے۔ اس کے والدین کا کچھ اتا پتہ نہیں۔ ہم نے اسے لاوارث سمجھ کر پالا پوسا ہے۔“ الفاظ تھے کہ پگھلا ہوا سیسہ جو صبیح رحمانی کے کانوں میں اترا جا رہا تھا۔ وہ بلبلا اٹھے اور تلملاتے ہوئے نکاح خواں کے کانوں میں گھسر پھسر کرنے لگے۔

”جب لڑکے کے ماں باپ کا پتہ نہیں تو کیا معلوم یہ ان کی جائز اولاد ہے یا ناجائز اولاد ہے؟ میں خود کو اس جوہڑ میں ڈال کر آلودہ نہیں کر سکتا۔“

جو شخص لے پالک کے ساتھ اپنی ولدیت لگا کر نکاح پڑھوائے گا وہ نکاح ناجائز ہوگا اور وہ شخص گناہ کا مرتکب ہوگا۔ پرورش کرنے سے کوئی باپ نہیں بن جاتا اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہیے۔ نکاح کے وقت نکاح نامے میں ولدیت کے خانے لکھنا چاہیے نامعلوم ، اور واوین میں لکھا جائے گا لے پالک فلاں۔“ مولوی صاحب مسئلہ بتا بری الذمہ ہوگئے۔

”آپ لوگوں نے ہماری شرافت اور عزت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ ہماری سادہ لوحی اور لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر ہمیں دھوکہ دے رہے تھے۔ اب کسی صورت یہ شادی نہیں ہوسکتی۔“ یہ کہہ کر صبیح رحمانی نے دلہن بنی فارعہ کا ہاتھ پکڑا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے ، اہل خانہ و دیگر احباب کو لیے چلے گئے۔ روشن قمقمے صفورہ کی آنکھوں میں چبھنے لگے۔

دلہا بنا عبداللہ گنگ کھڑا رہ گیا تھا۔ کیا کہتا؟ کس کس کی سنتا۔ اسے لگا جیسے وہ زمین میں دھنسا جا رہا ہے۔ شاید وہ لوگوں کی تمسخر اڑاتی نگاہوں کی تاب نہ لا سکا تھا۔ سہرے کے پھول اس کے چہرے کی طرح مرجھا گئے تھے۔

صدمے سے چور محب اللہ سکتے کی حالت میں ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ صفورہ نے ایک گہری سانس لی اور اپنے مجازی خدا کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ وہ کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھے اس وقت انہیں تنہائی چاہیے تھی۔

چند ساعتیں بیتنے کے بعد وہ مستعدی سے اٹھے ایک آدھ جگہ فون کیا۔ اگلے دن اخبار میں شادی کی منسوخی کا اشتہار شائع ہوگیا تھا۔
عبداللہ رات سے کمرے میں بند تھا۔ صفورہ جلے پیر کی بلی کی طرح اس کے کمرے کے پھیرے لگا رہی تھی۔ جوان خون ہے کچھ غلط قدم نہ اٹھا لے۔ یہی سوچ سوچ کر ہولے جا رہی تھی۔ صفورہ ایک باشعور اور ذہین عورت تھی۔ زندگی کے پینتیس سال محب کی زوجیت میں گزارنے والی آج اپنے مجازی خدا کو موردالزام ٹھہرانے پر مجبور ہوگئی تھی۔ وہ بپھری ہوئی لہروں میں سکوت پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ بالآخر عبداللہ کے کمرے کا دروازہ کھل گیا تھا۔

” خودکشی حرام ہے اور مجھ پر ویسے ہی حرام کا ٹیگ لگا ہوا ہے۔ میں چاہ کر بھی حرام موت کو گلے نہیں لگا سکتا۔“ صفورہ کی دبی دبی چیخوں نے محب اللہ کے بے جان وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ عبداللہ چپ نہیں ہوا تھا وہ بڑے سبھاؤ سے کہہ رہا تھا۔

”رشتہ ختم ہونے پر کیوں افسردہ ہوں؟ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں۔ فارعہ سے میرا جوڑ نہیں تھا اس لیے بات نہیں بنی، آپ لوگ حوصلہ رکھیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔“

عبداللہ کی حوصلہ افزاء گفتگو سن کر صفورہ اور محب علوی کا غم کچھ ہلکا ہوا۔ اللہ معاف کرے اتنی احتیاط کے باوجود ایک کوتاہی سرزد ہوگئی تھی۔ آگاہی کے در وَا ہوتے ہیں تو ذہنوں پر جمی دھول بھی چھٹ جاتی ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.