حافظہ (ازقلم: ڈاکٹر ادیب عبدالغنی شکیل، ملتان)
فائزہ نےجھنجلا کر اپنے کزن اسفند کے بارے میں اپنی چھوٹی بہن آسیہ سے بات کی۔

"اللہ جی کی گائے ہے یہ لڑکا۔ اب بندہ اتنا بھی سیدھا نہ ہو کہ سامنے والے کے جذبات ہی نہ سمجھ سکے اور ہر بات منہ کھول کر سمجھانی پڑے۔”
فائزہ نےجھنجلا کر اپنے کزن اسفند کے بارے میں اپنی چھوٹی بہن آسیہ سے بات کی۔ آسیہ صرف اس کی بہن اور رازداں ہی نہیں تھی بلکہ وہ اسفند کی بھی چہیتی کزن تھی۔
اس نے فائزہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا
"تم ٹینشن نہ لو میں اسفند بھائی سے بات کروں گی اور چند روز بعداس نے فائزہ کی موجودگی میں اسفند سے کہا
"اسفند بھائی وہ فائزہ کو وہ ہوگیا ہے ۔۔۔”
اسفند گھبرا کر پیچھے مڑا اور فا ئزہ کو دیکھتے ہوئے بولا
"کیا ہوا اسے ؟ بھلی چنگی تو ہے یہ۔”
آسیہ نے کہا
"شکر ہے یہ أپ کو بھی بھلی چنگی تو لگی۔ اسے وہ ہوگیا ہے جو فلم میں ہیروئن کو ہیرو سے ہو جاتا ہے یعنی پیار۔”
اسفند نے نہایت اشتیاق سے پوچھا
"اچھا جی تو اس ہیروئن کا ہیرو کون ہے؟”
آسیہ نے کہا
"بھیا جی أپ اور کون ؟”
فائزہ تو شرماتی ہوئی دوڑ گئی جبکہ اسفند ششدر وحیران کھڑا ہونقوں کی طرح کبھی آسیہ کو دیکھ رہا تھا تو کبھی اس طرف جدھر فائزہ دوڑ کر گئی تھی۔
چند روز بعداسفند صحن میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ آسیہ، فائزہ اور دوسری کزنز ایک طرف بیٹھی گپیں لگا رہی تھیں۔ ساتھ ساتھ موبائل پر مختلف گانے بھی چلارہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعددوسری کزنز تواپنے بھائی کے ساتھ بازار خریداری کے لیے چلی گئیں آسیہ اور فائزہ وہیں بیٹھی رہ گئیں۔
فائزہ نے موبائل پر گانا چلادیا
یادش بخیر بچپن میں
کھیلے تھے گھر أنگن میں
اور اسفند کی طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرانے لگی۔
اسفند اس حرکت پر بھناگیا اور تپ کر بولا
"فائزہ بی بی فلمی دنیا سے باہر آؤ اور حقیقت میں جینا سیکھو۔ میرے والدین کسی طور کزن میرج کے حق میں نہیں ہیں اور نہ میں ہوں۔
جہاں تک تعلق ہے
یادش بخیر کا
تو میری دعا ہے
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
تم بچپن سے ہی میرا بہت خیال رکھتی رہی ہو۔ اگر کبھی میں کھری چارپائی پر سو گیا تو تم نے بڑے أرام سے میرا سر اٹھا کر اس کے نیچے تکیہ لگایا۔ رات سونے سے پہلے دودھ کا گلاس پیش کیا۔ دوپہر کو کسی کو میرے قیلولے میں مخل نہ ہونے دیا۔ اگر مجھے اس وقت اندازہ ہوجاتا کہ اس سارے ڈرامے سے تمہارا کیا مقصد ہے تو میں اسی وقت ہاتھ جوڑ لیتا کہ
بخشو بی بلی
چوہا لنڈورا ہی بھلا
آسیہ اور فائزہ یہ سن کر گنگ ہوکر رہ گئیں۔
فائزہ کے ارمانوں اور خوابوں کا تاج محل دھڑام سے زمین پر گر کر چکنا چور ہوگیا۔ وہ چند دن رو دھو کر چپ ہوگئی۔گھر میں اس سارے واقعہ کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
اسفند گھر میں سب سے بڑا تھا۔اس لیے ماں کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ چاند سی بہو لانے کے لیے اس کی ماں نے اپنی مہم کا اغاز کرنے سے پہلے اس کے ابو سے رسمی اجازت طلب کی یہ ایسے ہی تھا جیسا ہمارے ملک میں صدر ،وزیر اعظم کی مشاورت پر کسی فائل پر دستخط کرتا ہے۔
منفرد و ممتاز لب و لہجہ اور انداز کے مالک ملتان کے عالمگیر شہرت کے حامل شاعر خالد مسعود کے الفاظ میں اس کا رشتہ نہ ہو سکنے کا باعث اس کا ابا تھا، سب حریان تھے اس نے ایسا ابا کہاں سے لبھا تھا والی بات نہ تھی بلکہ حقیقت وہ تھی جو مشہور مزاح نگار شاعر و سٹیج سیکرٹری ضیاءالحق قاسمی نے بیان کی تھی کہ
اس کا رشتہ نہ ہونے کا باعث اس کی امی تھی
سب حریان تھے اس نے ایسی امی کہاں سے لبھی تھی
جہاُں تک اس کے ابا کا تعلق تھا
وہ تو ایک چلتی پھرتی ڈمی تھی
اس کی امی نے اس کے رشتے کی تلاش میں سینکڑوں لڑکیاں کنگھال ڈالیں۔ کسی کی ناک موٹی تو کوئی خود۔موٹی۔کوئی سوکھ سلائی تو کوئی افریقہ سے أئی۔
انہیں درکار تھی مکھن ملائی اس لیے کوئی نہ بھائی۔
"شارٹ لسٹڈ” امیدواروں میں سے سب میں اسفند کو کوئی نہ کوئی خامی، کمی نظرآئی اس لیے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس کے کزنزاور دوستوں کے ہاتھ اچھا خاصہ لطیفہ لگ گیا۔ایک روز سب کزنز اور دوست بیٹھے گپ شپ کررہے تھے ان میں کاشف نے سب سے زیادہ بھانڈ والی طبیعت پائی ہے۔اس نے میز کو بطور طبلہ بجاتے ہوئے
لہک لہک کر گانا شروع کردیا
وہ پری کہاں سے لاؤں
تیری دلہن جسے بناؤں
کہ
گوری کوئی پسند نہ أئے تجھ کو
چھوری کوئی پسند نہ أئے تجھ کو
شعیب عرف شیبی بولا۔
"میں دنیا میں ہونے والی عجیب و غریب شادیوں کےبارے میں پڑھ رہا تھا۔ ابھیشک بچن سے پہلے ایشوریا رأئے کی شادی ایک درخت سے کی گئی ۔ کئی افراد نے تو اپنے أپ سے شادی کر ڈالی ۔تم بھی یہی کرو۔”
اسامہ نے کہا ، نہیں بھئی نہیں جیسا کہ کاشف گارہا تھا اسفند کو تو کوئی حور پری ملنی چاہئے۔ یونیورسٹی میں ایک سے بڑھ کر ایک پری مل سکتی ہے لیکن ان میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ
شکل مومناں
کرتوت کافراں”
ایک کونے سے أواز أئی
"یونیورسٹی سے بات نہیں بن رہی تو کوئی مدرسہ ٹرائی کرلو۔”
یہ جاوید تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا
مردہ نہ بولے تو نہ بولے
لیکن جب بولے تو کفن پھاڑ کر بولے۔
اسفند بولا
"ٹھیک ہے بھائی ۔ طے ہوگیا اب مدرسہ کی کسی طالبہ بلکہ کسی حافظہ سے شادی کرنی ہے۔
جاوید تمہاری دکان کے باس مدرسہ ہے وہاں سے کوئی حافظہ ڈھونڈ۔”
جاوید نے کہا "تیس سیل والی یا ون ڈالر سیل والی۔
میں نے کوئی حافظات کا جمعہ بازار لگایا ہوا ہے ۔ کل میری دکان پر أجانا۔ وہاں سے گزرنے والیوں کو دیکھتے رہنا پھر جو مزاج یار میں أئے”
منیر پورا فلسفی ہے اس نے گویا مراقبے سے سر اٹھایا اور بولا۔
"میری بات مانو کسی حافظہ سے شادی مت کرنا کیونکہ انہیں صرف تین کام ہوتے پڑھنا،کھانا اور سونا۔ مزید یہ کہ
پڑھ پڑھ حافظ کرن تکبر، ملا کرن وڈیائی ہو۔
ویسے تمہیں سر حافظ مشتاق انجم کی بات یاد ہوگی کہ حافظ اور ہدایت اکٹھے نہیں ہوتے۔”
اس مرحلہ پر مجھے مداخلت کرنا پڑی۔
میں نے کہا
"یہ أپ کا گھر کا معاملہ ہے مجھے بولنا نہیں چاہئے لیکن میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اس لیے وضاحت ضروری ہے کہ ہر حافظ یا حافظہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے گھرانے کا ہر مرد بفضل تعالی’ حافظ ہے اور ہمارے گھرانے کی خواتین کا بھی قرأن سے تعلق بہت مضبوط و توانا ہے۔میری خلد نشین زوجہ محترمہ نے تو ہمارے گھر کہکشان کو رشک جنت بنادیا تھا۔”
منیر نے دست دعا بلند کیے اور کہا
"اللہ کرے اسفند کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی معاملہ ہو”
سب نے أمین کہا
اگلے روز عجب ہی تماشہ ہوا ۔ اسفند اپنی والدہ کے ہمراہ جاوید کی دکان پر جا بیٹھا اور ہرأنے جانے والی کو یوں دیکھنے لگے جیسے قربانی کے لیے بکری پسند کرنی ہو۔
یکایک جاوید گنگنانے لگا
گوری ہیں کلائیاں
تو لادے مجھے ہری ہری چوڑیاں
اپنا بنالے مجھے ساجنا
پھر بولا
"آنٹی جائیں اس سیاہ عبایا والی کا پتہ کریں۔ ہمارے ہیرو صاحب کو یہی پسند ہے۔”
اسفند کی والدہ نے پوچھا۔
تمہیں کیسے پتہ ؟”
جاوید نے جواب دیا
"أنٹی ہم سارے دن بندے چراتے ہیں. اڑتی چڑیا کے پر گن سکتا ہوں تو اسفند کی نگاہوں کی چمک کیسے مجھ سے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔”
اسفند نے اس لڑکی کا کھرا نکالا اور اس کے گھر رشتے کے لیے جا پہنچی۔
لڑکی والوں نے تھوڑے پس پیش کے بعد ہاں کردی۔
شادی پر خوب دھوم دھڑکا ہوا ۔
شادی والے دن وہ لڑکی أخری بار تھی روئی
بعد میں لڑکا کل حیاتی بانگیں مار کے رویا
اس شعر کا پہلا مصرع غلط ثابت ہوا اور دوسرا درست۔
شادی والے دن بھی اس لڑکی کی انکھ میں ایک بھی أنسو نہیں تھا بلکہ ولیمہ والے دن وہ کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑی جیسے پہلی بارکھا رہی ہو یا یہ اس کی زندگی کا اخری کھاناہو۔
اسامہ نے کہا۔
"یار ہماری بھابی تو کافی پیٹو ہے”
کاشف نے تصحیچ کرتے ہوئے کہا
کسی عورت خاص طور پر نئی نویلی دلہن کے لیے پیٹو کا لفظ کافی غیر پارلیمانی لگتا ہے تم انہیں بسیار خور کہہ سکتے ہو۔”
اسفند نے دبے دبے انداز میں ڈانٹتے ہوئے کہا
"تم انہیں خوش خوراک بھی تو کہہ سکتے ہو۔”
جاوید۔نے کہا
"یہی حالات رہے تو ہم کچھ عرصہ بعد کہہ سکیں گے کہ أپ کے پاس بی ایم ڈبلیو ہے۔”
اسفند نے پوچھا
"کیا مطلب؟”
جاوید نے سرسری سے انداز میں کہا۔
"بہت موٹی وأئف ”
اور کھسک لیا۔
حافظہ نے اسفند کی دنیا زیرو زبرکرکے رکھ دی۔ ہر روز اسے بیگم کی عدالت میں پیش ہونا پڑتاہے۔ حد سے زیادہ متشددبیگم شد و مدسے میکے أتی جاتی ہے۔ اسفندجھلنگنا چارپائی پر نون غنہ بنا پڑا ہوتاہے۔
کزنز کہتے ہیں
غالب تیرے عشق نے سب بل دئیے نکال
مدت سے أرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
وہ خود یہ دعا کرتا ہے
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میری