اسیرِ محبت (افسانہ نگار: بینش احمد، اٹک)

کیا میں نہیں سمجھتی کہ تمہاری آنکھیں منظر کے پس منظر میں کچھ اور ڈھونڈتی ہیں۔

اور وہ لوٹ آیا۔
بیس برس بعد،
جگنوؤں سے بھرے دامن کے ساتھ مگر چہرہ تاریک،
آنکھیں بےنور،
ایک لمبے سفر سے واپسی،

ایسا سفر جو ہر لحاظ سے اُس کےلیے سودمند تھا مگر اُسے تہی دامن ہی رہنا تھا سو رہا۔ وہ ایک احساس تھا جس نے اُسے خود سے دور کر دیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا پر ایسا کچھ تھا جو وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔

ایک حسین دولت مند بیوی کے پہلو میں دل کی گرفتگی اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ وہ اکیلا ہی تو اس کشمکش میں مبتلا نہیں تھا۔ فری نے بھی تو شادی کے ساتویں دن ہی احتجاج شروع کر دیا تھا۔

”آخر کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ کیا ڈھونڈتے رہتے ہو تم؟ کیا کھو گیا ہے تمہارا ؟ہجوم میں بھی الگ رہنے کی کوشش کرتے ہو اور میرے ساتھ بھی اجنبی سا سلوک۔“

احمر نے لاکھ سمجھایا:” ایسی کوئی بات نہیں۔ “

فری اُس کی بات کاٹ کر بولی۔ ”ایسی ہی بات ہے جاہل گنوار نہیں ہوں میں۔ دنیا سے دور کر دیا ہے مجھے تمہاری سرد طبیعت نے۔ میری ہر خوشی تشنہ لب ہی رہ جاتی ہے۔ کیا تھا اگر تم میرے ساتھ مسز اکرم کی پارٹی میں چلے جاتے۔ مجھے اکیلا دیکھ کر سب نے خوب باتیں کیں۔ کیا میں نہیں سمجھتی کہ تمہاری آنکھیں منظر کے پس منظر میں کچھ اور ڈھونڈتی ہیں۔ تم مجھے چُھوتے ہو مگر کسی اور کے لمس کے تمنائی ہوتے ہو۔“

احمر نے ہتھیار پھینک دئیے۔
”مجھے معاف کردو۔اچھا چلو تمہیں ڈنر باہر کرواتا ہوں۔“
فری نے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”یہی تو مسئلہ ہے تمہارا۔ تم ڈیوٹی سمجھ کر کیوں نبھاتے ہو اپنے اور میرے رشتے کو؟“

وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ ایک بےکلی نے اُس کا دل شکنجے کی طرح جکڑ رکھا تھا۔ کچھ ایسا ہو گیا تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور جو نہیں ہوا تھا اُسے وقوع پذیر ہونا چاہیے تھا۔

اُسے یوں لگا جیسے غلطی ہو گئی ہے لیکن زندگی توگزارنی تھی۔

اِنہی جھٹکوں سے زندگی کی گاڑی بڑھنے لگی اور بیس برس کا عرصہ گزر گیا۔ اب ادھیڑ عمر کی ٹھہری جھیل تھی۔ کبھی کبھی اسی کیفیت کا شدید جھٹکا پتھر کا کام دیتا اور طلاطلم خیز موجیں احمر کے دل و دماغ میں بھونچال پیدا کر دیتیں۔ جس بوجھ کے ساتھ ساری زندگی گزاری اب وہ بوجھ اُس کے قدم زمین میں دھنساہے دے رہا تھا۔ دل کو بھی روگ لگ گیا تھا۔ جسم بھی بیماریوں سے نحیف ہو گیا تھا، مگر اب اِس الجھن کا سرا ملتا ہوا نظر آنے لگا تھا۔ اب اس بےچینی کا محرک زندہ وجود کی جھلک دکھاتا اور ناقابل فہم ادراک سے اُسے اور کشمکش میں مبتلا کر جاتا۔

پھر احمر نے اِس الجھن کا سرا پکڑ لیا، جب اُسے کئی بار خواب میں موہنی کا چہرہ نظر آیا۔ وہ عام سے چہرے والی موہنی جو احمر کے گاؤں میں رہتی تھی- پہلے تو احمر کو موہنی کے خیال سے ہی حیرت ہوئی کہ اتنے لوگوں میں سے اُسے وہی کیوں نظر آئی۔ پھر اُس کے دل نے سارے سوالوں کے جواب دے دیے۔

احمر اپنے لیے موہنی کے خیال میں سچے جذبے کی نوخیز کلیوں کی چٹک سن چکا تھا مگر نوجوان احمر کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔وہ اس کا عادی ہو گیا تھا۔ وہ ایک وجیہہ نوجوان تھا اور اس پر تراہ یہ کہ جب فری کے باپ کے ہاں اُسے نوکری ملی تو گاؤں کہ ہر مٹیار کی آنکھوں میں احمر کے لیے جگنو چمک اٹھتے تھے۔ اس چکا چوند میں احمر کو ہوش نہیں رہا کہ موہنی اُس وقت سے ہی اُسے اپنی خاموش نگاہوں میں بسا چکی تھی جب وہ بے روزگار تھا اور اُس کے پاس پُھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔

احمر کو اپنے خواب بیرون ملک جانے کی سیڑھی فری نظر آئی جو سورج کی طرح تابناک تھی اور موہنی تو ٹمٹماتا ستارہ تھی۔ جب شادی کے بعد وطن چُھوٹا تو موہنی بھی پس منظر میں چلی گئی۔
*
”کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے؟ساری رات بھی کروٹیں بدلتے رہے۔ اب یہ کیا گھنٹے سے گھڑی کو دیکھے جا رہے ہو۔ “فری کمرے میں آئی اور احمر کو ٹوکا۔

احمر نے آنکھیں بند کر لیں۔ مسلسل دیکھنے سے اُس کی آنکھیں جلنے لگ گئیں تھیں۔

”میں تو یہاں کی تیز رفتار زندگی میں گھڑی کی سیکنڈ والی سوئی کی طرح چکر پر چکر کاٹتا رہا اور وہاں کوئی یک ٹک میرا منتظر رہا۔“ احمر بڑبڑایا۔

کئی بار اُس نے موہنی کے تصور کو جھٹک دینا چاہا یہ سوچ کر کہ کہیں وہ خود تو اُسے اپنے آپ پر حاوی نہیں کر رہا مگر وہ جتنا اُس کے خیال اُس کے تخیل سے دور بھاگتا اُتنا ہی وہ مکڑی کے جالے کی طرح اُس سے چمٹ جاتا تھا۔ اِسی کشمکش میں وہ ٹکٹ بھی کروا بیٹھا۔
”میں پاکستان جا رہا ہوں۔“ فری نے حیرانی سے اُسے دیکھا جبکہ بیٹی بولی۔”بابا! میرے امتحانات ہونے والے ہیں ورنہ میں بھی آپ کے ساتھ چلتی۔“

احمر نے واحد ٹکٹ سامنے کیا۔
”میں اکیلا ہی جا رہا ہوں۔“
*
احمر کو یوں لگ رہا تھا وہ جہاز میں نہیں بیٹھا بلکہ کوئی اسے پروں پہ بٹھائے مراقبے میں بیٹھی کسی پاکیزہ روح کی دعا کے صلے میں لیے جا رہا ہو۔
جب وہ موہنی کے گھر کے پاس پہنچا تو یہاں ابھی تک وہی موسم ٹھہرا ہوا تھا جو وہ بیس برس پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔ یہاں وقت پہ جیسے برف جم چکی تھی۔ پینڈولم جیسے ٹوٹ گیا تھا ہوا اسی طر ح خراماں خراماں قدم رکھ رہی تھی۔

وہ آگے بڑھا۔ نہر کا پانی بھی پہلے کی طرح رکا ہوا تھا۔ پھول وہی خاموش چہروں سے کسی انہونی کے منتظر تھے۔ پرندے اپنی شاخوں پہ ویسے ہی چُپ تھے۔ بلبل کی چونچ میں وہی ادھ کھایا ہوا امرود تھا۔ بکری جو پہلے بھی اپنے میمنے کو چرنا سکھا رہی تھی وہ ابھی تک سیکھا نہیں تھا۔

شاید وہ ایک ایسے جہان میں آ گیا تھا جہان ایک لمحہ بیس برس پر محیط تھا۔ وہ خود کتنا بدل گیا تھا اُس کی زندگی کتنی وسیع ہوگئی تھی ہنگامہ خیز مگر یہاں وہی منجمند لمحہ تھا۔ سیٹی بجاتی ہوئی خاموشی سے گھبرا کر وہ اپنے کانوں میں انگلیاں دینے ہی کو تھا کہ وہ سامنے آ گئی۔ سفید دوپٹے کے ہالے میں معصوم چہرہ۔

باقی ماحول کی طرح اُس پر بھی وقت کی گرد نہیں پڑی تھی۔ اُس کا چہرہ ابھی ابھی ہلکا ہلکا گیلا تھا جیسے پہلے وہ احمر کو الوداع کہنے جائے نماز سے بھاگی بھاگی آئی تھی۔ پانی کے ان قطروں میں احمر کو اپنی بیس برس کی مسافت کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں ۔ ابھی بھی اُس نے ہاتھ میں تسبیح پکڑ رکھی تھی۔ جس کے ایک ایک دانے کے گرنے پر احمر ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا گیا تھا، اور محبت کے اس لمحے میں بیس برس کی مسافت طے کر آیا تھا۔

موہنی کے لب ہلے۔
” احمر! آپ آ گئے ، مجھے آپ ہی کا انتطار تھا۔“
احمر کا خواب دیدہ جذبہ لفظوں میں رس گھولنے لگا۔
” تم نے بلایا تھا بھلا کیسے نا آتا۔“
موہنی نے اُسے حیرت سے دیکھا۔
” مگر میں نے تو آپ سے کبھی اظہار نہیں کیا تھا۔“

”بےشک مگر اُس خدا سے تو کیا تھا نہ جس سے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر مجھے مانگا کرتی تھی۔ اُسی نے مجھے بھیجا ہے۔ تم اتنے برس میرا انتظار کرتی رہی اور میں۔۔۔۔ “
موہنی نے اُسے بیچ میں ٹوکا۔

” مگر مجھے کوئی گلہ نہیں احمر۔ میں نے تو ہمیشہ آپ کی خوشیوں کی دعا کی۔آپ کے لیے سکون چاہا۔“
” وہی تو نہیں ملا مجھے۔میں زندگی کی چکی کے دو پاٹوں میں گھومتا ہوا جانے کہاں سے کہاں نکل گیا۔ مگر اُس لمحے کی دوڑ نے میرا دل جکڑے رکھا جس سے میں اب واقف ہوا ہوں۔“

موہنی کے قدم اپنی جگہ زمین پہ جمے ہوئے تھے۔ اُس کی کھلی منتظر آنکھوں میں امید کا ایک پژمردہ جگنو ہی بچا تھا وہ بھی اب بجھنے کو تھا۔
احمر کو یوں لگا کہ وہ موہنی کو چھو لے تو یہ سارے ٹھہرے منظر پھر سے چل پڑیں گے۔ نہر بہنے لگے گی۔ پھول جھومنے لگیں گے۔ پرندے چہکنے لگیں گے۔ پھول جھومنے لگیں گے۔ میمنا بڑا ہو جائے گا۔
اور۔۔۔۔
اُسے بچپن میں پڑھی ہوئی کہانی
” سویا ہوا محل“ یاد آنے لگی۔

جب شہزادی، اُس کا سارا محل اور کنیزیں سوئی ہوتی ہیں لیکن جونہی شہزادہ شہزادی کو چھوتا ہے تو سب جاگ جاتے ہیں۔
احمر کا بوڑھا ہاتھ موہنی کے مرمریں ہاتھ کی طرف بڑھا۔ جونہی اُس نے موہنی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو اُس کی برفیلی ٹھنڈک اُس کے دل تک اتر گئی۔ اُسے یوں لگا اُس نے برف کے مجسمے کو چھو لیا ہے۔ اُسے یوں لگا کہ وہ بیس برس پہ محیط اُس ایک لمحے اُس محبت کے لمحے کا اسیر ہو چکا ہے جیسے زمان و مکان کی کوئی گردش اُس لمحے کے جمود کو نہ توڑ سکے گی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.