اگلا شکار ( اردو افسانہ، تحریر: دانیال حسن چغتائی )
ابھی ابھی بستر نمبر بارہ کی مریضہ فرزانہ کا انتقال ہوا ہے۔

میں نے فرزانہ کو کل رات مرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اس کا کمزور سا ہاتھ پکڑا کیونکہ اس کی سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں پتھرا سی گئی تھیں اور اس کی جلد پیلی پڑ گئی تھی۔ میں نے آگے جھک کر اپنا کان اس کے ہونٹوں کے قریب کیا تو اس کی آخری سانسوں کی سرگوشی مجھے واضح طور پر سنائی دی۔
میں نے اس کا ٹھنڈا ہوتا ہوا ہاتھ چھوڑ دیا اور دل کی دھڑکن سننے کے لیے اپنا سٹیتھو سکوپ اس کے سینے پر رکھ دیا لیکن دل کی دھڑکن اب خاموش تھی ۔ ایک زندگی ختم ہو چکی تھی۔ خود کو پر سکون کرنے کے لیے میں نے ایک گہرا سانس لیا۔ میں کمرے سے باہر نکلی، اور باہر کی روشنی کو مدھم کر دیا۔ میں نے ڈیوٹی ڈاکٹر کو فون کیا۔
ڈاکٹر ممتاز نے چار مرتبہ فون کرنے کے بعد اٹھایا۔
"جی ہاں؟” اس نے نیند سے بوجھل آواز میں کہا.
میں ایمرجنسی وارڈ سے سسٹر مریم بات کر رہی ہوں۔ ابھی ابھی بستر نمبر بارہ کی مریضہ فرزانہ کا انتقال ہوا ہے۔
فرزانہ؟ واقعی؟ ڈاکٹر نے حیرانی سے پوچھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مزید کچھ دن زندہ رہے گی ۔
میرا بھی یہی خیال تھا۔ میں نے کہا۔ میں نے اسے آدھا گھنٹہ پہلے چیک کیا تو اس کی سانس اکھڑ رہی تھی، اس لیے میں نے اس کے آکسیجن کے بہاؤ کو بڑھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
آہ، آپ نے اپنا فرض اچھی طرح نبھایا۔ وہ خوش قسمت تھی کہ آپ نے اسے بچانے کی کوشش کی۔ میں اس کی تعریف پر مسکرا دی۔
"کیا میں اس کے گھر والوں کو اطلاع کر دوں؟
ہاں اور آپ ڈیتھ سرٹیفکیٹ تیار کر دو، میں صبح راؤنڈ کے دوران اس پر دستخط کروں گا۔ میں نے کال منقطع کر دی، اور بستر نمبر بارہ کی دراز سے فائل لائی، تو اچانک صفائی والا لڑکا آ گیا ۔
کیا چل رہا ہے؟ اس نے پوچھا. میں نے اسے بھی فرزانہ کے انتقال کے بارے میں بتایا۔
"کتنے دکھ کی بات ہے۔ اس نے مجھے اوپر کی دراز سے ڈیتھ فارم اٹھا دیا۔ ہمارے وارڈ میں لوگوں کا مرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ یہ ایمرجنسی وارڈ تھا جہاں ایسے مریضوں کو لایا جاتا جن کے بچنے کا امکان کم ہوتا ۔ یہ اپنی زندگی کے آخری لمحات اسی وارڈ میں گزارتے تھے ۔ فرزانہ بھی ایسی ہی ایک مریضہ تھیں۔ جن کو آنتوں کا کینسر لاحق تھا ۔
میں نے فون اٹھایا اور فرزانہ کی فائل پر درج نمبر ڈائل کیا۔ اس کی بیٹی خاموشی سے روتی رہی۔ اور اس کے بعد اس نے محض اتنا کہا ، آپ کا شکریہ۔
آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ مجھے یہ سن کر کتنا سکون ملا ہے کہ آپ ان کے آخری لمحات میں اس کے ساتھ تھیں۔ اس نے قدرے سفاکانہ انداز میں کہا کہ آپ ان کو دفن کر دیں۔ ہم تجہیز و تکفین کے تمام اخراجات ادا کر دیں گے ۔
مجھے اس کے رویے پر بہت افسوس ہوا۔ یہ واقعی ناقابل یقین بات ہے، لڑکے نے کہا۔
کیا مطلب؟ میں نے فارم اٹھاتے ہوئے کہا۔
مجھے اس کی بیٹی کے رویے پر بہت دکھ ہوا ہے ۔ تمہاری ہمت قابل دید ہے۔ میں کبھی یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ لوگوں کو یہ بتا سکوں کہ ان کا پیارا انتقال کر چکا ہے ۔
میں نے بیس سال اس وارڈ میں نوکری کی ہے۔ میں نے آہ بھری، سویپر نے مردہ خانے کے انچارج کو مطلع کیا، کہ وہ لاش کو برف خانے میں منتقل کریں ۔
جب میرا کام مکمل ہو گیا، تو میں وارڈ میں دوسرے مریضوں کو چیک کرنے چلی گئی، بعد میں فرزانہ کے خاموش کمرے میں واپس آئی تاکہ اس کی لاش کو ڈھانپ سکوں ۔
اس کا آکسیجن ماسک وہیں پڑا تھا جہاں میں نے اسے اس کے تکیے پر رکھا تھا جہاں اس نے آخری سانسیں لی تھیں۔ میں نے آکسیجن اور اس کے ڈرپ بیگ کو منقطع کیا، اور اس کے ہاتھ سے اس کی بوتل ہٹا دی۔ ماسک، ڈرپ بیگ اور نلیاں فضلے والے ڈبے میں ڈال دیں ۔ میں نے جراثیم کش سپرے کھولا اور اس کے چہرے اور گردن کو صاف کرنے لگی۔ میں نے دستانے نہیں پہنے اور ویسے ہی صفائی کو ترجیح دی۔ میں نے اس کے اسپتال کے گاؤن کو کھول دیا۔ آخر میں، اس کے بازوؤں اور ٹانگوں کو سیدھا کیا ، منہ کو بند کر دیا ۔
میں نے اس کے چہرے پر جھک کر اس کی بے جان آنکھوں میں جھانکا اور کہا الوداع بوڑھی عورت۔
میں نے اپنی ہتھیلی سے اس کی آنکھیں بند کر دیں۔ مجھے پردے کے پیچھے سے سویپر کی آواز سنائی دی۔
کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے؟
سب کچھ ہو گیا، میں نے جلدی سے فرزانہ کے چہرے پر چادر کھینچتے ہوئے کہا۔ عملے نے فرزانہ کو مردہ خانے منتقل کر دیا۔
میں مریضوں کو ان کی مطلوبہ ادویات دیتی رہی ۔ جب میں نے سوئے ہوئے شہر پر سورج کو پر سکون طور پر طلوع ہوتے دیکھا تو میں نے سوچا کہ آج کی دنیا کتنی مختلف ہوگی کہ اس میں ایک روح کم ہو چکی تھی۔
سات بجے میں نے ڈیوٹی کو دن کے عملے کے حوالے کیا اور اپنا بیگ لے آئی۔
میں نے اپنا کارڈ سکین کیا اور لفٹ کو گراؤنڈ فلور پر لے گئی۔ میں دالان سے نیچے بائیں مڑ گئی جہاں سال کے بہترین ملازم کے ایوارڈز آویزاں کئے گئے تھے۔
میں اپنی چھوٹی سی فریم شدہ تصویر کو دیکھنے کے لیے رک گئی۔ سسٹر مریم، ایمپلائی آف دی ایئر 2022۔
میں یہ دیکھ کر مسکرا دی۔
اڈے پر پہنچ کر میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور لوگوں کو اپنے دن کا آغاز کرتے دیکھا۔ شہر جاگ رہا تھا اور میں سونے والی تھی۔ میں نے فرزانہ کے بارے میں سوچا، جو اب ہمیشہ کے لئے سو چکی تھی۔ موت ایک عجیب تصور ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں، سکون سے آرام کرو، لیکن کیا مرنے والے واقعی آرام کرتے ہیں؟ جب فرزانہ کا خیال آیا تو مجھے اس کا جواب مل چکا تھا۔
اپنی طویل شفٹ کے باوجود، میں نے اس کے انتقال میں جو کردار ادا کیا تھا اس کے بارے میں سوچ کر مجھے حوصلہ ملا۔ میں نے بہت سے لوگوں کے ہاتھ پکڑے تھے، جب وہ اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے ۔
مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ وارڈ کے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ میری ہمدردی تھی جس کی وجہ سے مجھے سال کے بہترین ملازم کا ایوارڈ دیا گیا ۔
میں اپنے سٹاپ پر بس سے باہر نکلی اور اپنے اپارٹمنٹ تک تیز رفتاری سے فاصلہ طے کیا۔ میں گھر جانے کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتی تھی۔
میں نے کیتلی کو آن کیا، چائے بنائی، اپنا ناشتہ تیار کیا اور کھا کر سونے کی تیاری کرنے لگی ۔
میں اپنے بیڈ روم میں گئی اور پردے بند کر لیے۔ میں اپنے لباس کو تبدیل کرتے ہوئے گنگنانے لگی۔
بستر پر لیٹے ہوئے میں نے اپنا سیل فون نکالا اور تصاویر پر کلک کیا۔ میں ساری رات اس لمحے کی منتظر تھی۔ میں نے اپنی تازہ ترین تصویر کھولی، اور فرزانہ کا مردہ چہرہ دیکھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا، اس کی بے جان آنکھیں میری سکرین پر نظر نہیں آ رہی تھیں۔ میں نے پچھلی تصویر پر سوائپ کیا۔ فرزانہ نے مجھے گھور کر دیکھا، اس کے چہرے پر خوف کی جھلک تھی۔ یہ تصویر اس وقت لی گئی تھی جب میں نے بوتل کو تیز کرنے کے لیے کافی ساری انسولین کے ساتھ اس کی بوتل میں زہر کی ایک بڑی مقدار کا انجکشن لگایا تھا۔
سویپر کے چائے کے وقفے سے واپس آنے سے پہلے مجھے اس کی جلد از جلد موت کی ضرورت تھی، کیونکہ میں اس کی تیمار داری سے تھک چکی تھی ۔ یہاں تک کہ میں نے اپنی سفاکانہ کارروائی کے ثبوت کے لیے روشنی کو جلا کر اس کا آکسیجن ماسک ہٹا دیا تھا۔ ’’نہیں!‘‘ وہ کمزوری سے ہانپ رہی تھی، مہلک زہر پہلے ہی اثر کر رہا تھا۔
میں مردہ فرزانہ کی تصویر پر واپس گئی اور اسے اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے بڑا کیا۔ میں نے اسے اتنا بڑا کیا کہ پوری سکرین اس کی مردہ آنکھوں سے بھر گئی۔
"سمجھی!” میں نے سرگوشی کی۔ میں نے اس وقت قہقہہ لگایا جب میں مردہ اور زندہ فرزانہ کی تصاویر دیکھ رہی تھی ۔
چند ثانیے بعد، میں نے دونوں تصاویر کو اس فولڈر میں منتقل کر دیا جہاں میں نے فرزانہ سے پہلے مرنے والوں کی تصاویر محفوظ کر رکھی تھیں۔ ۔ ان سب کی موت متوقع تھی اور ان میں سے کسی کو بھی پوسٹ مارٹم کی ضرورت نہیں تھی۔ میں، ایک قابل احترام نرسنگ بہن جسے بیس سال کا تجربہ ہے اور سال کے بہترین ایوارڈ کا اعزاز رکھتی ہوں، نے موت کے ہر سرٹیفکیٹ پر قدرتی وجوہات لکھی تھیں۔
میں نے ان کی تصاویر سنبھال لی تھیں اور ثبوت جلا دیئے تھے۔ میں نے اپنا فون چارجنگ پر لگایا، بتی بجھائی اور نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔ اگلا شکار میرا منتظر تھا۔