قرض ( ازقلم: عائشہ مقصود طور، تاندلیانوالہ فیصل آباد)

زینت! فاطمہ!آج تمہارے ابا کہاں چلے گئے ہیں وہ بھی صبح ،صبح ہی ؟

قرض ( ازقلم: عائشہ مقصود طور، تاندلیانوالہ فیصل آباد)

”کوئی کام کاج ڈھنگ کا سیکھا ہوتا تو آج ہم یوں بھوک سے نہ مر رہے ہوتے۔ جوان بچیاں سکول جاتی ہیں ، کیا ان کے خالی پیٹ جانے سے تمھیں سکون ملتا ہے؟“ موحد کی بیوی شاہتاج اپنے روایتی انداز میں شوہر پر چلائی۔

موحد ایک کم پڑھا لکھا مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص تھا۔ موقعہ بہ موقعہ مزدوری سے خالی ہاتھ ہی واپس لوٹتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہر تیسرے پاکستانی کی طرح دن بدن مقروض ہوتا چلا جا رہا تھا، اور قرض کی اندھی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا تھا۔

”میں نے کہا سنو بھی یا اپنی ہی باتوں میں بڑبڑاتی رہو گی، مجھے آج سر درد اور جسم میں سوزش کی شکایت ہے چائے بنا کر دے دو۔“ موحد نے اپنی بیوی کے شکوہ ہائے سننے کے باوجود اپنی تکلیف کی شکایت کی۔

”دودھ ہوتا تو بچیوں کو چاۓ بنا دیتی آپ کی تو فرمائشیں ختم ہونے کو نہیں اور بچے ہیں کہ۔“ شاہتاج روہانسی ہوتے ہوئے بولی۔
”اچھا کل بخار بھی ہوا تو بھی کام پر چلا جاؤں گا آتے ہی پیسے واپس کر دیں گے، وہ نسیم لوگوں سے دودھ لے لو آج کیلئے ۔“ موحد نے کہا۔

”ان کا پہلے والا ادھار بھی ابھی چکانے والا ہے۔ اب میں کیا کہہ کر دوبارہ سے ان کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں گی ۔“ شاہتاج برتن لے کر خود کلامی کی حالت میں نکل گئی موحد دل ہی دل میں حساب کر رہا تھا۔ کہ اس ماہ حکومت نے مزید ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا بجلی کا بھی چیونٹی کی رفتار کی طرح بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔ غریب لوگ تو صرف دنیا میں امیروں کا آلہ کار بننے کیلئے بھیجے گئے ہیں۔ جس کا جب جہاں دل چاہا استعمال کیا، اور پھر ردی کی طرح توڑ مڑوڑ کر پھینک دیا۔

روزانہ کی آمدن صرف 800 روپے،800 میں آتا کیا ہے 65 روپے کلو آٹا ہے، 70 روپے کلو چینی ہے 700 روپے کلو گھی، اور باقی راشن، سبزی، بچوں کی فیس یہ سب کچھ غریب کہاں سے پورا کرے ۔ساڑھے تین مرلے کا مکان جو اتنا فرنش بھی نہیں کہ اچھی مالیت میں بیچ کر قرض تو چکا لیا جائے، اور نہیں تو تین چار ماہ کی فیس دے دی جائے کسی طرف سے تو سکون ہو۔

انھی باتوں میں موحد جیسے کھپ کر رہ گیا تھا کہ اسے دنیا و مافیہا کی خبر تک نہ ہوئی ، اچانک ٹھک کر کے اس کے قریب پڑی میز پر شاہتاج نے چائے کی پیالی رکھ دی۔

”جاگ رہے ، یا سو رہے ہیں کب سے آوازیں دے رہی ہوں میں، کہاں بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتے ہیں۔“ شاہتاج نے کڑکتے لہجے میں پوچھا۔
موحد چائے کو سامنے دیکھ کر کبھی اپنی بیوی کی طرف دیکھتا اور کبھی چائے کی پیالی کی طرف اسے یہ سب کسی خواب کی سی کیفیت محسوس ہو رہی تھی ۔ پھر وہ سوچنے لگا کہ شاید میں گھنٹوں مراقبے میں رہا ہوں یا پھر چائے پکی پکائی آئی ہے، خیر اس کو حقیقت تب لگی جب شاہتاج نے اسے بازو سے پکڑ کر سہارا دیتے ہوئے ٹیک لگانے کو کہا۔

”اللہ پاک خوش رکھے بیگم اللہ کے بعد آخری سہارا اس دنیا میں آپ ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ مکان بیچ دیں اور قرضوں سے جان چھڑائیں۔“
”پہلے ہمارے پاس ہے کیا کہ اب بچوں کی چھت بھی چھین لیں، چپ کریں ایسا خیال بھی ذہن میں مت لائیے گا، کیونکہ جوان بچیاں ہیں اگر بیٹے ہوتے تو ہم پھر بھی کہیں گزارہ کر لیتے ،لیکن میں اپنی بیٹیوں کو رلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔“ شاہتاج نے دو ٹوک اپنے مؤقف کا اظہار کیا۔

صبح ہوئی موحد اپنی سوچوں میں گم ناشتہ کیے بنا اپنے پرانے کپڑے شاپر میں ڈال کر مزدوری کیلئے نکل گیا، شاہتاج اٹھی تو زینت اور فاطمہ سکول کیلئے تیار ہورہی تھیں۔

زینت! فاطمہ!آج تمہارے ابا کہاں چلے گئے ہیں وہ بھی صبح ،صبح ہی ؟

شاہتاج کی جیسے اپنے میاں کو نا پا کر ہچکی سی بندھ گئی آخر وہ ایک مشرقی عورت تھیں۔ اور مشرقی عورت کی یہ خوبی ہے کہ وہ خواہ مجبوری میں شادی کرے یا محبت میں بہر حال شوہر ہی اس کے سر کا تاج ہوتا ہے، اور وہ اسے دل سے تسلیم کرتی ہے۔ سامنے ہو تو دونوں میں کئی بار نوک جھونک ہو جائے پر پل بھر نظر سے اوجھل ہو تو سانس سینے میں اٹک جاتی ہے۔

سورج کرنوں سے جمودِ ارضی کو جنجھوڑ رہا تھا اور ہوا سرِزمین میں اپنے جھونکوں سے مساج کرنے میں محو تھی، عموماً خوشگوار سا دن تھا طیورانِ فرش و فلک نغمہ خواں تھے۔ کوے کی آواز باقی پرندوں کی بہ نسبت خوشگوار محسوس ہو رہی تھی کیونکہ وہ گھر کے بنیرے پر بیٹھ کر کائیں کائیں کر رہا تھا۔ جیسے کوئی پیغام لے کر آیا ہو لیکن علمِ سلیمانی اور منطق الطیر ہر کسی کے پاس کہاں البتہ ہمارے معاشرے میں کوے کا گھر کے بنیرے پر بیٹھ کر بولنا ایک نوید سمجھا جاتا ہے۔

شاہتاج ایک نظر مڑی اور کوے کو اڑانے لگی تھی۔ پھر کسی خیال سے ترک کر دیا ، اندر کچن میں گئی تو دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ کھانے کا سامان اور راشن پڑا ہوا تھا۔وہ بچیوں کو ناشتہ دینے میں مگن ہو گئی، اور پھر کچھ دیر بعد فراغت پا کر کر سامان سمیٹا تو ایک رقعہ ملا۔
”شاہتاج! میری بیٹیاں اللہ کی اور پھر آپ کی امانت ہیں۔ ان کا خیال رکھنا، میں نے آج تمام قرض چکا دئیے ہیں، دنیا و آخرت میں معاف کرنا، آپ کا محبوب شوہر موحد۔“

رقعہ پڑھ کر شاہتاج کچھ لمحوں کے لیے سکتے میں چلی گئی، کہ اچانک گھر کا دروازہ بجا اور باہر سائرن کی آواز سنائی دینے لگی۔
وہ دیر تک کھلے دروازے کی طرف دیکھتی رہی اور وہ آواز اس کے دماغ میں نقش ہوگی، ایمبولینس گئے گھنٹہ ہو چکا تھا گھر میں عورتوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھی، زینت اور فاطمہ گھر کے صحن میں پڑی چارپائی سے لپٹ کر رو رہی تھیں، شاہتاج دوڑتے ہوئے اپنے شوہر کی چارپائی کی طرف بھاگی اور اس کے سینے سے لپٹ کر اپنے آنسو بہانے لگی۔

آج پھر مہنگائی اور قرضوں کی بھینٹ چڑھ کر ایک نوجوان دارِ فانی سے رخصت ہو چکا تھا ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.