فتور (افسانہ، ازقلم: سلمٰی کشم)

دم توڑتی آرزو کی سسکیوں کی خاموش آواز اسکے اندر گونچتی رہی

افسانہ: فتور ، ازقلم: سلمٰی کشم

”پانچ بہنوں کا ہونا اور پھر دو بہنوں کے بعد تیسرا نمبر میرا، جانے کس جرم_کی سزا تھی_جسے عمر بھر بھگتنا تھا _“

سعدیہ انگریزی کی پھٹی پُرانی کتاب کو جگہ جگہ ٹیپ لگاتے ہوئے خود سے ہی باتیں کیے جا رہی تھی۔ بعض صفحات تو اتنے بوسیدہ تھے جیسے کسی شکستہ حال سفید پوش کے بیرونی دروازے پہ لٹکا ہوا ٹاٹ کا پردہ __ ایک ہی صفحے پر تو اُسے پانچ ٹیپ لگانا پڑے تھے۔

لفظوں کو ساتھ ساتھ جوڑ کر پھر اگلی پچھلی سطروں کا دھیان رکھ کے وہ گھنٹے بھر سے اس مشقت میں پڑی رہی کہ کتاب پڑھنے کے قابل ہو جائے۔

سکول والوں نے سال بھر کی مغزماری کے بعد اسے ایک درجہ آگے کر دیا۔ کلاس نئی مگر اس کے حالات اسی پہلے درجے جیسے پرانے_

اس بار تو شدید خواہش تھی کہ نئی جماعت میں نئی کتابیں ہی لے گی. جس کے لیے اس نے پندرہ بیس دن انتظار بھی کیا اور ابا جی سے بھی کہا ۔ مگر اب کی بار بھی اسکی فرمائش، حسرت و یاس کے روپ میں ہمیشہ کی طرح گھریلو ضرورتوں تلے دب کر دم توڑ گئی۔

اس دم توڑتی آرزو کی سسکیوں کی خاموش آواز اسکے اندر گونچتی رہی لیکن یہ کونسی نئی بات تھی. اُس نے جب سے اس گھر میں آنکھ کھولی تھی ہر خواہش اور فرمائش کی آنکھیں بند ہی دیکھیں۔

جہاں ہمیشہ ضروتوں کے منہ کھلے ہوں وہاں اکثر فرمائشیں سِسک سِسک کر دم توڑ دیتی ہیں۔ بنیادی ضروتوں کے لیے تگ و دو اور جتن بھی انسانی رشتوں کو کبھی کبھی خود غرضی اور کج روی تک لے آتا ہے ۔ خواہ یہ رشتہ اولاد کا ہو یا آپس میں بھائی بہنوں کا _

جس طبقے سےاس کا تعلق تھا وہاں فرمائش کرنے کا حق ہی کہاں تھا ۔یہاں تو بس حسرتیں اور دم توڑتی ہوئی ناتمام آرزؤوں کے لبادے ہی اوڑھے جاتے تھے ۔

بیچارے ابا جی ہی جانتے تھے کہ کلرک کی تنخواہ سے مہینے کے آخر میں گھر کا چولہا خون پسینے کی کمائی کی بجائے خون جگر سے چلتا ہے۔

پانچ بہنوں میں سے کسی ایک کی خواہش پوری ہو جانا بھی بڑی بات تھی ۔ لیکن یہاں تو بات ضرورتوں تک محدود تھی کہ بس ضرورت پوری ہو جاۓ، پیٹ میں روٹی تن پہ کپڑا اور عزت کی چھت ہو بس_

پانچ بیٹیوں کی تعلیم تو اضافی خرچہ تھا جو ابا کے خون جگر سے چل رہا تھا۔ ہاں بس ابا نے اتنا ضرور کیا کہ پہلے وہ صرف بڑی بہن کی کتابیں لیتی تھی اب چچا زاد کے گھر سے بھی منگوا دیں تاکہ ان دونوں نصابی دستوں میں جو کار آمد ہو

وہ دیکھ کے رکھ لے۔ اس لیے سعدیہ اس دستے کو واقعی میں کارآمد بنانے لگی تھی۔ اماں جب کسی شادی بیاہ یا عید کے لیے خریداری کر کے گھر لوٹتی تو ساری لڑکیاں باوجود اماں کے آوازیں لگانے کے اماں کے لائے تھیلے پر بے صبری سے جھپٹ پڑتیں۔

”کہ جانے اماں کیا لائی ہے. سب سے اچھا جوڑا میں ہی لوں گی. لال رنگ کی چوڑیاں میری ہیں __ ہیل والا سنہری جوتا میرا ہوگا__“
سب بہنیں یہی سوچ کے سامان کھولتیں ۔

بلکہ اکثر تو کھولنے کی بھی نوبت نہ آتی کھینچا تانی میں ہی سب باہر ___ سامان سارا نیچے بکھر جاتا پلاسٹک تھیلا پھٹ جاتا ۔ پھر اماں چولہے پہ بیٹھی چلاتی اور بیٹیوں کو خوب کوستی۔

تھوڑی دیر کے لیے منہ بسور کے سب بہنیں ادھر ادھر کھسک جاتیں مگر سب کا دھیان بدستور اسی سامان میں لگا رہتا ، کہ اماں اب خود سے دے تو دے__

پھر اماں ہانڈی چولہے سے فارغ ہو کر سب سے پہلے چھوٹی بیٹی کو جوتے پہنا کر دیکھتی پورے ہیں کہ بڑے ہیں؟__ پھر اس کے کپڑے ساتھ لگا کے لمبائی چوڑائی ماپتی __

اسی اثنا میں اماں کو پتہ چل جاتا کہ سب سے بڑی بہن اپنا سامان نکال کر لے جا چکی ہے ۔ ”ہا ئے ہائےوہ تو میرے برتنے کی چیزیں بھی لے گئی _ “ اماں سامان دیکھتے ہوئے اسے آواز لگاتی۔

پہلی بڑی بہن کے عید کے کپڑے پھر اس دوسرے نمبر والی کے کھینچ تان کے پورے کئے جاتے مگر جب تیسرے نمبر پر سعدیہ کی باری آتی تو اماں شش و پنچ میں پڑ جاتی کہ اب کیا کرے۔

پھر سوچ وچار کے بعد طے پاتا کہ پچھلی عید پر بڑی بہن نے جو غرارہ پہنا تھا اب اسے چھوٹا ہوگیا ہے، اور سعدیہ کے ماپ کا ہے، بس سعدیہ وہی پہن لے گی۔

”لو جی مل گئی عید پر بھی __اترن“ سعدیہ کے منہ سے بے اختیار نکلتا یہی صورت حال جوتے اور باقی چیزوں کے بارے میں بھی تھی۔

ایک دو روز تک سعدیہ منہ بنائے خاموش پھرتی رہتی، اور بڑی بہنوں کی چیزوں کو لجاحت سے دیکھتی رہتی، دو دن تک پھر خود بخود اس کا رویہ پہلے جیسا ہو جاتا اور اس کا ذہن اترن کو قبول کر لیتا ،وہ پھر معمول پہ آ جاتی۔

جب کبھی وہ اپنے حالات کو سوچتی تو اسے لگتا کہ شاید سمجھوتہ ہی زندگی کا دوسرا نام ہے، شاید اس کی قسمت میں اترن ہی ہے اسے ایسے ہی جینا ہے شاید یہی اسکا نصیب ہے اور اُسے اسی نصیب کے ساتھ خوش اور مطمئن رہنا اور جینا سیکھنا ہے، ورنہ تو صرف دکھ ہی دکھ ہوں گے اس کے لیے _

جب سعدیہ جوانی کی دہلیز پہ قدم جماتی ہے تو اس کے خدو خال بڑی بہنوں سے بھی اچھے نکلتے ہیں، بڑی بہنوں کے بس میں ہوتا تو اسکے سراپا کا حسن بھی چھین لیتیں۔ مگر یہ تو رب کی عطا ہے اسکی دین ہے جسے چاہے نواز دے۔

اس کا چچا زاد عمر ،اس سے پانچ سال بڑا تھا. جب کبھی اُن کے گھر آتا تو اسکی نگاہ بے اختیار سعدیہ کی طرف اٹھ جاتی اور خود سعدیہ بھی اسے دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتی اور اپنی آنکھوں میں نئے نئے سپنے پرونے لگتی ۔ جن میں نئی زندگی، نئے شوق نیا گھر عمدہ پکوان اور رنگ برنگے نئے کپڑے بھی شامل ہوتے، اور وہ سب چیزیں جو اسے کبھی نئی نہ مل پائیں. اس طرح کے خواب دیکھنا تو اس کا حق تھا اور یہ حق تو اس سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا تھا حتیٰ کہ اُس کی بہنیں بھی نہیں۔

مگر تقدیر بھی حالات کو ساتھ لیے چلتی ہے دو بڑی بہنوں کو بیاہ دیا گیا ان میں سے ایک کی شادی اسی چچازاد سے ہو گئی جسے سعدیہ اپنے خوابوں کا شہزادہ بنائے پھر رہی تھی۔

باقی بچی سعدیہ اور اُس سے چھوٹی دو بہنیں۔ بڑی بہنوں کی شادی کے بعد سعدیہ کو گھر میں مان ملنے لگا، اور کبھی کبھار نئے کپڑے بھی مل جاتے، لیکن بس دو سال تک ہی !!

سعدیہ کی بڑی بہن دوسرے بچے کی پیدائش کے دوران اللہ کو پیاری ہو گئی۔ دو چھوٹے بچوں کی پرورش کرنا اور ساتھ فکر معاش بھی ایک گھمیبر معاملہ تھا، چچی نے بہن کے چالیسویں کے دن ہی ابا سے سعدیہ کا ہاتھ مانگ لیا۔

کہ جلد نکاح اور رخصتی چاہیے۔ قسمت کی مہربانی دیکھیے کہ اب شوہر بھی مل رہا تھا تو بڑی بہن کی ”اترن“.

اب یہ سعدیہ کی سوچ پر منحصر تھا یا تو وہ اترن کے فتور کو اپنے ذہن سے مکمل طور پہ نکال کے اپنی محبت کو جی جان سے گلے لگا ئے اور خوش رہے اور اترن کے فتور کو دریا برد کر دے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.