کامیابی کا سفر (ازقلم: عروج فاطمہ، غزالی گرلز ہائی سکول پھالیہ)

وہ ہر نالائق بچے کے لیے ایک مثال اور ہر استاد کیلئے ایک سبق بن گیا تھا کہ کوئی بھی بچہ نالائق نہیں ہوتا.

کامیابی کا سفر (ازقلم: عروج فاطمہ، غزالی گرلز ہائی سکول پھالیہ)

اف آج پھر دھوپ میں کھڑا کردیا. پتہ نہیں یہ سر سزا دے دے کر تھکتے کیوں نہیں ہیں. اتنی گرمی میں بھی ان کو زرا ترس نہیں آتا ہم پر. شازین اپنے ماتھے پر سے پسینا صاف کرتے ہوئے اپنے دوستوں کو بتارہا تھا. جوکہ خود بری حالت میں کھڑے تھے.

شازین جس کو ہر بات کی پرواہ ہر کام کی فکر ہوتی مگر پڑھائی کے نام سے وہ بھاگتا تھا. یا پھر شاید وہ پچپن سے ہی ایسا تھا. لاپروا بے فکر سااس کے گھر میں ایک بھائی اور والدین تھے.

وہ اپنے بھائی سے 6 سال چھوٹا تھا اسکی ماں گھریلو اور بہت سادہ عورت تھی اور باپ نے چھوٹی سی کریانے کی دوکان بنائی ہوئی تھی جس سے بس گھر کا خرچہ چلتا. باقی کے اخراجات اس کے بھائی کی نوکری سے چلتے جو وہ پڑھائی کے ساتھ وقت نکال کر کرتا تھا. لیکن شازین کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ پیسے کہاں سے آتے ہیں اسے بس ہر روز اپنا خرچہ چاہیے ہوتا جو وہ اپنے فضول دوستوں پر خرچ کرتا تھا.

ہاتھ آگے کرو تمہارا تو روزانہ کا معمول بنا ہوا ہے جتنا مرضی مارلو سزا دے لو کوئی فرق نہیں پڑتا زندگی میں آگے کیا کرو گے سب آگے چلے جائیں گئے اور تم فیل ہوکر 9 کلاس میں ہی پڑے رہنا. ارے جب پڑھائی نہیں ہوتی تو گھر بیٹھو حرام خورو کیوں اپنے ماں باپ کی حلال کی کمائی کے دشمن بنے ہوئے ہو دفع ہوجاؤ کلاس میں.

شازین بہت ہی آرام سے مارکھا کر سر کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ کم از کم اس کے لیے یہ ایک عام سی بات تھی کہ بے عزتی ہورہی ہے. باقی کلاس کے لڑکے تو کبھی سبق یاد کرلیتے تھے مگر شازین صاحب ہمیشہ مار کھاتے تھے.

سر کے کہنے پر وہ ایک سیدھی لائن میں کلاس کے اندر جانے لگے تو کسی لڑکے نے پچھے سے بتایا کہ یہ سر کسی وجہ سے ٹرانسفر کروا رہے ہیں اپنا ان کی جگہ کوئی نئے سر آئیں گے چلو کچھ تو اچھا ہوگا. اسی طرح کچھ دن یونہی گزر گئے اور ایک دن جب شازین کلاس میں داخل ہوا تو کمرے کی صاف صفائی ہورہی تھی کوئی بچہ دیواریں صاف کررہا تھا تو کوئی کرسیاں صاف کررہا تھا.

کمرا اتنا بڑا نہیں تھا کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی وائٹ بورڈ دیوار پر لگا ہوا ملتا جس کے بالکل سامنے ڈائس رکھا ہوا تھا جس پر ٹیچر لیکچر دیتے تھے اور ڈائس کے بالکل سامنے کرسیاں لگی ہوئی تھیں. تین قطاریں ایک دیوار کے ساتھ اور تین ایک دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی درمیان میں جگہ خالی تھی. دیواروں پر مختلف قسم کی ڈرائنگ اور چارٹ لگے ہوئے تھے.

شازین حسب معمول آخری کرسی پر بیٹھ گیا. آہستہ آہستہ بچے آنے لگے اور پھر اسمبلی کے بعد ٹیچر بھی کلاس میں آئے سب کھڑے ہوگئے. سر حماد نے اپنا تعارف کروایا اور کتابیں کھولنے کو کہا شازین بہت غور سے سر کو دیکھ رہا تھا. سر بہت ہی اچھی طبیعت کے نفیس انسان تھے. انہوں نے سفید رنگ کی شلوار قمیض کے اوپر گرے رنگ کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی چہرے کی رنگت سفید اور داڑی کے کالے بالوں میں کچھ سفید بال بھی دکھائی دے رہے تھے جو ان کی شخصیت کو چار چاند لگا رہےتھے.

شازین، شازین! اپنے دوست کے بلانے پر وہ بری طرح چونکا. کیا ہوا ہے؟ شازین سرتمہیں ہی دیکھ رہے ہیں. سبق پر دھیان دو کیوں آج پہلے ہی دن ڈانٹ کھانے کا دل ہے اس کےدوست نے بہت آہستہ سے کہا.

تھوڑی دیر بعد سر سبق سننے لگے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے سب سے پہلے شازین کو سبق سنانے کے لیے اٹھایا. کلاس کے کچھ بچے جو خود کو لائق سمجھتے تھے آہستہ سے ہسنے لگے ان میں سے ایک بچے نے سر کو بتایا کہ اس نے سبق کبھی نہیں سنایا یہ کلاس میں نالائق بچے کے نام سے مشہور ہے کوئی ٹیچر اسے پسند نہیں کرتا یہ سن کر سر نے شازین کی طرف دیکھا جو سر جھکا کر کھڑا تھا سر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور باقی بچوں کی طرف متوجہ ہوگئے.

شازین نے بہت حیرت سے سر کی طرف دیکھا جو اب ڈائس کی طرف جارہے تھے انکی اس کی طرف پشت تھی شازین حیرت بھرے انداز میں خاموشی سے بیٹھ گیا لیکن کچھ تھا ایسا جو اس نے محسوس کیا کچھ ایسا جو شاید پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اسی طرح کلاس ختم ہوئی. پھر دوسرے ٹیچرز آئے اپنا اپنا لیکچر دیا….

لیکن شازین آج سارا دن بہت خاموش رہا تھا. چھٹی کے بعد وہ جب گھر پہنچا. پہلے فریش ہوا پھر کھانا کھا کر فارغ ہوا تو کتابیں کھول کر بیٹھ گیا. اس کی ماں بہت حیران ہوئی کہ یہ اچانک تبدیلی کیسی کیونکہ اس کے گھر والوں کو بھی اچھے سے پتہ تھا کہ ان کا چھوٹا بیٹا کتنا لائق ہے. کیونکہ پہلے کبھی کتابیں کھولی نہیں تھی جب کبھی پیپرز قریب ہوتے تھوڑی بہت تیاری کرلیتا.

لیکن آج جب کلاس میں سب کو سر حماد نے کمسیٹری کے پورے چیپٹر کا ٹیسٹ دیا تو اس نے کلاس میں ہی سوچ لیا تھا کہ وہ کل اچھا ٹیسٹ دے گا. لیکن کیونکہ اسے کچھ بھی نہیں آتا تھا. تو اسے سمجھ نہیں آرہی تھی ایک ساتھ اتنا سارا کیسے یاد کروں اور کہاں سے کرو وقت بھی بہت کم تھا.

کل ٹیسٹ تھا….. جب کچھ یاد نہیں ہورہا تھا تو اس نے کتاب بند کردی اور کھیلنے چلا گیا- اگلے دن سر حماد نے ٹیسٹ لیا تو حسب معمول شازین کا سب سے گندا ٹیسٹ تھا اور سر حماد نے پھر اسے کچھ نہیں کہا. بس مزید یہی ٹیسٹ دوبارہ دے دیا سب کو اور شازین کو کلاس ختم ہونے کے بعد آفس میں بلایا.

یہ وہ واحد سر تھے جن سے شازین ڈرتا تھا. سر حماد جس راستے سے آرہے ہوتے شازین انہیں دیکھ کر راستہ ہی بدل لیتا جتنا ہوسکتا وہ سر سے چھپنے کی کوشش کرتا. لیکن آج انہوں نے آفس میں بلایا وہ ڈرتا ہوا جار ہا تھا.

میں اندر آجاؤں سر؟ ہلکی سی دروازے پر دستک دیتے ہوئے سر سے پوچھا. جو آنکھوں پر چشمے لگائے کسی فائل پر کوئی کام کررہے تھے انہوں نے اس کی طرف دیکھا اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا.

بیٹھوں بیٹا شازین، انہوں نے آنکھوں پر سے چشمے اتار کر سائیڈ پر رکھتے ہوئے شازین کو بیٹھنے کا کہا. شازین نے بھی جھجکتے ہوئے ان کے حکم کی پاسداری کی.

سر حماد نے ایک پیپر اٹھا کر شازین کے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ جو میں نےآج کیمسٹری کا ٹیسٹ دیا ہے کل کیلئے وہ ہے کل یہ ہی سارے سوالات آئیں گے تم انہیں یاد کر لو.

سر بول رہے تھے اور شازین کو شاک لگ رہے تھے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے کیا یہ کوئی مذاق ہے ہاں یہ ایک مذاق ہی ہے کوئی ٹیچر ایسا کیسے کر سکتا ہے ابھی وہ یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ سر نے اس کے چہرے کے تاثرات کو بڑھتے ہوئے اپنے لفظوں میں بیان کیا کہ یہ واقعی کل کا ٹیسٹ ہے تم انہیں یاد کرلو بغیر کچھ کہے شازین حیرت بھرے انداز میں ٹیسٹ لے کر باہر کلاس روم میں چلا گیا اسی طرح چھٹی کے بعد جب وہ گھر گیا تو کافی محنت کے بعد سارا ٹیسٹ یاد کر ڈالا جیسے ہی صبح ہوئی تو وہ بہت ہی خوشی کے عالم میں تیار ہوا اور سکول گیا کمیسڑی کی کلاس شروع ہوئی سب ٹیسٹ دینے لگ گئے .

ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد جب رزلٹ آیا تو شازین کے فل نمبر آئے، پوری کلاس پہلے تو شاک ہوئی پھر شازین کو مبارکباد دینے لگی لیکن شازین کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ خوش ہویا اداس.

کلاس کے بعد وہ کافی دیر تک گراؤنڈ میں اکیلا بیٹھا رہا بچے اردگرد کھیل رہے تھے لیکن وہ بس اپنے ہی خیالوں میں گم تھا کیونکہ آج پہلی بار اسے اپنا آپ بہت خاص لگا تھا آج پہلی بار اسے کسی نے نالائق نہیں کہا تھا تو اس کا مطلب تم نالائق نہیں تھے شازین بس تم چھپے ہوئے تھے یا پھر چھپائے گئے تھے اس کے اندر کسی نے آہستہ سے کہا.

ہاں سر حماد ایک بہت ہی قابل استاد ہیں جن کے ایک چھوٹے سے عمل نے مجھے خود سے روشناس کروایا جبکہ ان آٹھ سالوں میں کوئی استاد مجھے اپنی سختیوں سےسدھار نہ سکا

ہاں کوئی بھی بچہ نالائق نہیں ہوتا بس ہر نالائق بچے کو سر حماد جیسے استاد کی ضرورت ہوتی ہے جواسکی خامیوں پر اسے سزا دینے کہ بجائے اسکی خوبیوں سے اسے روشناس کروائے اور اسے بتائے کہ تم عام نہیں ہو اسے آخری کرسی پر سے اٹھا کر اپنے پاس اپنے سامنے بیٹھائے اور بتائے کہ تم بھی خاص ہو.

اسی طرح دن گزرتے گئے لیکن اب سر حماد اسے آدھا ٹیسٹ بتانے لگے آدھا وہ خود کرتا لیکن پھر بھی فل نمبر آتے. پھر ایک دن شازین کی بات پر سر حماد بہت خوش ہوئے اور اسے کامیابی کی دعا دی جب اس نے کہا کہ وہ اب خود محنت کرکے ٹیسٹ دے گا بغیر دیکھے یاد کرے گا شاید سر یہی سننا چاہتے تھے اسی لیے وہ بہت خوش تھے.

انہیں یہ بھی یقین تھا کہ وہ پورے نمبر لے گا اور ایسا ہی ہوا اس کے فل نمبر آئے شازین آج سچ میں خوش تھا کیونکہ نمبرز لینا اس کی روزانہ کی روٹین بن گئ تھی وہ صرف کمیسڑی میں ہی نہیں باقی تمام مضامین میں بھی ایک بہترین طالب علم بن گیا وہ ہر نالائق بچے کے لیے ایک مثال اور ہر استاد کیلئے ایک سبق بن گیا تھا کہ کوئی بھی بچہ نالائق نہیں ہوتا.

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.