تلافی (افسانہ، ازقلم: تابندہ طارق، چکوال)

برہان کی مرضی کے بغیر اس کی امی نے امبر اور برہان کی شادی کروا دی۔

تلافی (افسانہ، ازقلم: تابندہ طارق، چکوال)

امبر کے کمرے سے صبح صبح چیخ و پکار زور و شور سے سنائی دے رہی تھی. یہ چیخ و پکار برہان کے ہونے والے ظلم کا نتیجہ تھا۔ جو پچھلے کچھ سالوں سے ہونا اب ایک عام بات تھی۔ برہان امبر سے نفرت کی ہر حد پار کر چکا تھا۔ کیونکہ امبر ایک یتیم لڑکی تھی اور برہان کی والدہ نازیہ کی خاص دوست کی بیٹی تھی. اس لیے برہان کی مرضی کے بغیر اس کی امی نے امبر اور برہان کی شادی کروا دی۔ جبکہ برہان کسی اور کو پسند کرتا تھا۔

برہان کی امی ہمیشہ اس منع کرتی اور جب بھی روکنے کی کوشش کرتی۔ برہان کہتا امی پیچھے ہٹ جائیں مت روکیں مجھے ورنہ میرا ہاتھ آپ پر بھی اٹھ جائے گا۔ برہان کی دو بیٹیاں تھیں۔ وہ دونوں سہمی ہوئی سی دیوار کے ایک کونے میں بیٹھی یہ سب دیکھ کر روئے جا رہی تھیں۔۔

امبر کی اب برداشت کی آخری حد تجاوز کر چکی تھی۔ جب اپنی بیٹیوں کو دیکھتی تب اسے صبر کا گھونٹ پینا پڑتا۔ آخر اس کے پاس برہان گھر کے علاوہ کوئی مضبوط سہارا نہیں تھا جہاں وہ پناہ لیتی۔۔

بیٹی میں بہت شرمندہ ہوں میں بے بس ہوں تمہارے لیے کچھ نہیں کر پا رہی۔ پتا نہیں میرا اللہ مجھے معاف کرے گا بھی یا نہیں میں نے سب کچھ جانتے ہوئے تمہاری شادی اپنے بیٹے سے کروائی۔ یہ سوچ کر کے تم میری پیاری دوست مریم کی بیٹی ہو۔ مریم کے بہت احسان ہیں مجھ پر۔ برہان کی ماں جو اپنے کیے پر نادم تھی آخر بول پڑی.

خالہ جان میری امی کے احسانوں کا یہ کیسا صلہ مل رہا مجھے۔۔۔ آ۔۔۔۔۔ آپ تو۔۔۔ آپ تو اپنے بیٹے کے دل کا حال بخوبی جانتی تھیں۔۔
آپ جانتی تھیں ان کی محبت کا محور کوئی اور ہے۔۔

ان کے دل میں۔۔ ان کی زندگی میں میری کوئی جگہ نہیں ۔۔ تو۔۔۔ توپھر آپ نے۔۔امبر سسکتے ہونٹوں سے دکھ بھرے لہجے سے گویا ہوئی
ہاں یہ سچ ہے۔۔ میں برہان کے دل کے حالات سے بخوبی واقف تھی۔ لیکن میں نے یہی سوچ کر یہ قدم اٹھایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔

برہان اس لڑکی کو بھول جائے گا۔۔۔لیکن بیٹی میں غلط تھی مجھے معاف کر دو میں تمہاری اور مریم کی گناہگار ہوں میں۔۔ نازیہ امبر کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہی اس کے قدموں میں گر پڑی اور دھاڑیں مار کر رونے لگی۔

خالہ جان آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں۔۔ خدارا آپ مجھے گناہگار مت کریں۔۔ جو میرے ساتھ ہو رہا یہ میری اپنی قسمت ہے۔۔ یہ اس خالق کی مرضی اور حکمت ہے۔۔۔

امی ابو کے گزر جانے کے بعد آپ ہی میرا سب کچھ ہیں آپ نے نہ صرف مجھے اپنے گھر میں پناہ دی بلکہ میری خاطر کتنا کچھ آپ نے بھی کھویا۔۔

میری وجہ سے آپ کا بیٹا آپ سے دور ہوگیا۔۔ برہان کے دل میں آپ کے لیے پلتی نفرت آپ پل پل برداشت کر رہی ہیں۔۔اپنی ساس کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے گویا دل بڑا کرتے ہوئے کہنے لگی۔

ہاں شاید میں اسی نفرت کے قابل ہوں بیٹی ۔۔۔۔ تمہاری زندگی جہنم بن گئی میری وجہ سے۔۔۔ امبر نے نازیہ کو گلے لگایا اور دونوں زاروقطار رونے لگیں۔۔۔

امبر کی بیٹیاں یہ منظر دیکھ کر اپنی امی اور دادی کے ساتھ لپٹ گئی ۔۔ امی۔۔۔دادی ماں۔۔۔آپ دونوں کیوں رو رہی ہیں؟۔۔ امبر۔۔ کچھ نہیں بس آپ کی دادی ماں کوچوٹ۔۔

بابا نے مارا ہے کیا۔۔نتاشہ نے معصومیت سے کہا. نہ۔۔نہیں بیٹا ۔۔ ایسا کچھ نہیں۔۔۔۔بس آپ کی دادی ماں کا پاؤں پھسل گیا۔۔۔
نازیہ بھی ایک دم بول پڑی۔۔۔ ہاں نتاشہ آپ کی امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔

امی مجھے سب سمجھ آتا ہے۔۔۔آج بھی بابا نے آپ پر ہاتھ آٹھایا۔۔۔ میں نے دیکھا۔۔۔معصومیت بھرے لہجے میں نتاشہ بولی۔۔ نازیہ اور امبر نے دونوں بچیوں کو گلے لگا لیا۔ان دونوں کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔

برہان گھر سے باہر جا چکا تھا۔۔وہ اب بھی اسی لڑکی سے ملنے گیا تھا۔۔ کیسے مزاج ہیں برہان صاحب۔گیلے بال آنکھوں میں کاجل لگاتے ہوئے بولی۔ میری جان تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے میں تمہارے لیے صرف اور صرف برہان ہوں۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے فاطمہ کے گیلے بال ماتھے سے ہٹا کر کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے برہان نے جواب دیا۔۔

اچھا کیا فائدہ بیوی ہونے کا حق تو آج تک مجھے دے نہیں پائے۔۔اور باتیں بڑی بڑی کرتے ہو۔۔ صرف باتیں نہیں کرتا۔۔ یہ تم بھی جانتی ہو وہ صرف اور صرف میری مجبوری ۔۔۔ میری امی کی پسند ہے۔۔۔برہان چڑھتے ہوئے بولا۔۔

برہان کی بات فاطمہ کاٹتے ہوئے۔۔۔تو ٹھیک ہے اپنی امی کی خواہش پوری کر دی تم نے اب۔۔ چھوڑ دو اسے۔۔۔ برہان بولا۔۔۔ کیا چھوڑ دوں۔۔۔ کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔

فاطمہ: کیوں ۔۔۔ نہیں چھوڑ سکتے کیا۔۔۔ کہیں برہان تمہارے دل میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ ۔۔۔ لیواٹ۔۔ میں تمہارے پاس اس کی مالا جپنے نہیں آتا۔۔۔ پلیز ہمارے بارے میں بات کرو۔۔۔اور اگر میرے دل میں امبر کے لیے کوئی نرم گوشہ ہوتا تو میں یہاں کبھی نہ آتا، برہان چیختےہوئے بولا۔

برہان چلو شاپنگ کرنے چلتے ہیں اور کھانا بھی تمہارے فیورٹ ریسٹورنٹ میں کھائیں گے۔۔ فاطمہ برہان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
نہیں ہے میرا موڈ کہیں بھی جانے پر ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔۔۔ فاطمہ برہان کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔ارے بابا میں ہوں نہ موڈ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔۔پلیز ۔۔۔پلیز چلو نا۔۔۔ فاطمہ بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے برہان کا ہاتھ پکڑے ہوئے گاڑی تک لے گئی۔۔

برہان ۔۔فاطمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔۔۔فاطمہ تم میری زندگی کی سب سے خوبصورت سچائی ہو جسے میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔۔ فاطمہ نے خوب شاپنگ کی اور پھر کھانا کھا کر لانگ ڈرائیو پر چلے گئے۔۔۔ صبح سے کب رات ہو گئی وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا ۔۔برہان فاطمہ کو ڈراپ کر کے واپس گھر پہنچا۔۔

امبر ڈائنگ ٹیبل پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔برہان سیدھا اپنے کمرے میں جانے ہی لگا۔۔۔امبر بے ساختہ بولی۔۔۔آپ فریش ہو جائیں آپ کے کپڑے رکھ دیئے ۔۔۔میں کھانا لگا۔۔۔برہان اونچی آواز میں بولا بند کرو اپنا یہ فرمانبردار بیوی بننے کا ڈرامہ ۔۔۔ تمہیں تھوڑی سی بھی اپنی عزت نفس کی پرواہ نہیں چلی کیوں نہیں جاتی میری زندگی سے عذاب بنا دی ہے تم نے میری زندگی۔۔۔امبر سر جھکائے رونے لگی برہان اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔نازیہ بھی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی لیکن وہ بے بس تھی۔۔

نازیہ نماز کے لیے اٹھی وضو کیا نماز فجر ادا کرنے کے بعد تسبیح پڑھنے لگی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر رونے لگی۔۔میرے مالک میرے برہان کو ہدایت دے۔۔امبر کی آزمائشوں کا اب اختتام کر دے۔۔سجدہ ریز ہو کر رونے لگی۔۔۔

نماز سے فارغ ہو کر اپنے کمرے سے باہر آئی اور دیکھا۔۔۔اور سوچنے لگی۔۔۔امبر ابھی تک سو رہی ہے۔۔۔ نازیہ امبر اور بچیوں کے کمرے میں جب داخل ہوئے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گئی۔۔۔اور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی۔۔ اور وہیں بے ہوش ہو گئی۔۔۔برہان جب اٹھا تو دیکھا کے امی کہیں نہیں ہیں تو امی۔۔۔امی۔۔۔چلاتے ہوئے پورے گھر میں ڈھونڈنے لگا۔۔اب صرف بچیوں کا کمرہ باقی تھا۔۔ برہان جب کمرے میں داخل ہوا تو اپنی امی کو زمین پر بے ہوش دیکھ کر۔۔۔چلانے لگا

امی۔۔۔امی۔۔۔پلیز آنکھیں۔۔۔آنکھیں کھولیں امی۔۔۔اور کمرے کی حالت دیکھ کر وہ سمجھ چکا تھا کہ امبر بچیوں کے ہمراہ گھر چھوڑ کر جاچکی ہے۔۔اور نازیہ کو اسی بات کا صدمہ پہنچا تھا۔

اور جلدی سے امی کو گاڑی میں ہسپتال لے گیا۔۔۔ہسپتال پہنچتے ہی ڈاکٹر نے کہا۔۔۔ مسٹر برہان آپ کی امی کی حالت خطرے میں ہے انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔۔انھیں کوئی صدمہ پہنچا ہے۔۔۔برہان۔۔ کہتے ہوئے۔۔۔ڈاکٹر صاحب میری امی ٹھیک تو ہو جائیں گی نا۔۔۔ میں اپنی ساری دولت لٹانے کو تیار ہوں۔۔۔ڈاکٹر نے کہا۔۔۔لیٹ سی۔۔۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے آ کر کہا برہان صاحب۔۔ ۔۔ایم سوری۔۔ہم آپ کی والدہ کو نہیں بچاپائے۔۔۔

برہان روتے ہوئے امی آپ کیوں مجھے چھوڑکر چلی گئیں۔ امی کے گزر جانے کے بعد برہان بہت اکیلا ہو گیا۔۔اس نے اور فاطمہ نے شادی کر لی۔۔۔فاطمہ نے سارا بزنس اور پراپرٹی اپنے نام کرلی۔۔۔ برہان بیمار رہنے لگا۔۔ڈاکٹر نے بتایا اس کینسر ہے۔۔فاطمہ نے یہ بات سن کر دھکے مار کا برہان کو گھر سے نکال دیا۔۔ برہان کے پاس آج پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔۔امبر پر کیا ہر ظلم یاد آ رہا تھا۔۔اور اس رات امبر کو کیسے وہ گھر چھوڑنے پر مجبورکردیا۔۔۔

برہان ایک کار سے ٹکرا گیا۔۔۔۔آنکھیں کھولی تو اپنے سامنے ڈاکٹر اور ایک خاتون کو دیکھا برہان دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا۔۔وہ امبر تھی۔۔اور وہ ڈاکٹراس کی بیٹی نتاشہ۔۔امبر نے کہا۔۔میں آپ کی دہلیز سے جب نکلی تب ہی آپ کو معاف کر دیا تھا وہ میری قسمت تھی۔۔اور برہان اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.