جھوٹی قبریں (سیدہ رابعہ، فیصل آباد)

شاہ جی تیرے اولاد کیسے ہو گی؟ تیری اولاد تو یہاں دفن ہے۔

جھوٹی قبریں (سیدہ رابعہ، فیصل آباد)

شاہ زین پتر گل سن میری۔ تیرا چوتھا ویاہ اے، مینوں سمجھ نئیں آندی گل کی ائے؟

ہن وی جے تیری اولاد نہ ہوئی تے تیری قسمت۔ شاہ زین کی ماں نے اسے کہا جو نہ جانے اپنے بیٹے کی اولاد کو دیکھنے کے لیے برسوں سے صبر کر رہی تھی مگر قدرت نے شاید اولاد کا سکھ اس کے بیٹے کی قسمت میں لکھا ہی نہیں تھا۔

کوئی ڈاکٹر کوئی آستانہ، کوئی بابا جی کوئی دیسی ٹوٹکہ غرض کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا، جس نے جہاں بتایا وہاں چل دئیے، جو گند مند کھانے کو دیا وہ کھایا، جو دم درود، جھاڑ پھونک، کالے سفید بکرے سب کچھ کر کے دیکھ لیا تھا مگر ایک دفعہ بھی کوئی امید نہیں جاگی، اور یکے بعد دیگرے شادیاں اور شادیان بھی ہر عمر، ہر طرح کی عورت سے۔

مثلاً 4 شادیوں میں سے دو دفعہ کنواری، ایک طلاق یافتہ جس کے پہلے بچے تھے اور ایک بیوہ جو صاحب اولاد تھی مگر پہلی شادی سے چوتھی شادی تک کوئی 17 سال کا عرصہ گزر چکا تھا مگر ایسا لگتا تھا کہ شاہ زین کے نصیب میں اولاد ہے ہی نہیں۔

بختو کچھ کھا لے۔
ادھر تو دیکھ میری طرف!
کیا حالت کی ہوئی! چل دو نوالے منھ میں ڈال لے اب۔
سن رہی ہے مجھے تْو؟
سکینہ کی آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے بختو کو نیم پاگل حالت میں دیکھ کر۔ سکینہ بختو کی بچپن کی دوست تھی، دونوں نے اپنا بچپن، جوانی ساتھ گزارے تھے۔

آج بھی وہ جب بختو کو مٹی کے ڈھیر پر اپنے سر میں خاک اڑاتے دیکھتی تو سکینہ کا کلیجہ پھٹ جاتا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی دوست کس قدر حسین تھی بختو کا حسن دیکھ کر لوگ دانتوں میں انگلیاں داب لیتے تھے اور گاؤں کا ہر کڑیل جوان اس کے خواب دیکھتا تھا۔ وہ تھی ہی اتنی خوبصورت اور پر کشش کہ جو دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔

پھر ایک دن اس چاند سے چہرے کو گرہن لگ گیا، گرہن اس کو کیا لگا اس کے پورے خاندان کو لگ گیا۔ باپ تو پہلے نہیں تھا، ماں بھی بن بیاہی بیٹی کی کوک ہری دیکھ کر اللہ کو پیاری ہو گئی اور بھائی اپنا منھ چھپا کر رات کے اندھیرے میں سوتی بختو کو گھر کو آگ لگا کر چل دیئے۔

سب جل کر راکھ ہو گیا، کچھ بھی نہ بچا، اگر کچھ بچ گیا تو آدھی جلی بختو جس کی کوک میں دو ننھی کونپلیں پروان چڑھ رہی تھی۔ گھر والوں کے الزام سے باہر والوں کی منھ پر کالک ملنے تک، گھر کے جل جانے سے خود کے جل جانے تک، ماں کے مرنے سے لے کر بھائیوں کے آگ لگانے تک اپنی آنکھ سے ایک آنسو نہ ٹپکانے والی بختو اپنی اولاد کے مرنے پر پھوٹ پھوٹ کر روئی اور آسمان کی طرف منھ اٹھا اٹھا کر فریاد کرتی ہوئی بولی،
"میں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔۔۔”
میں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔۔۔”

وہ تو بھلا ہو سوہنی کا جو اسے اپنے سسرالی گاؤں لے آئی، ورنہ تو شاید وہ زندہ بھی نہ بچتی۔ مگر یہاں کے لوگوں نے بھی اسے قبول نہ کیا تو دور قبرستان کے پاس اس نے اپنا گھر بنا لیا۔

میری بات مان شہزادی، صرف 2،3 ماہ کی بات ہے پھر میں آ کر تیرے گھر والوں سے بات کر لوں گا اور ہم کون سا کوئی گناہ کر رہے ہیں؟ نکاح کر رہے ہیں، بات کو سمجھ۔
چوری چھپے نکاح گناہ ہی ہوتا ہے۔
اگر ایسی بات ہے تو پھر تو مجھے بھول جا!
میں تجھے کیسے بھول سکتی ہوں! تو تو میری رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔
پھر ڈر کس بات کا۔
قسمت کا ، قسمت نے ساتھ نہ دیا تو میں رل جاؤں گی۔
میں اپنی شہزادی کو رلنے نہیں دوں گا ، بس تو بھروسہ رکھ اور بات مان۔

20 سالوں میں بختو نے سارا دن دو چھوٹی قبروں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ نہ وہ کسی کو پہچانتی اور نہ اب وہ خود پہچان میں آتی تھی، بس سارا دن ان دو چھوٹی قبروں کو سنوارتی رہتی۔ کبھی پانی چھڑکتی، کبھی گارا ملتی اور پھر وہی گارا منھ پر مل کر سکون سے سو جاتی۔ جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کا منھ ہاتھ دھلا کر انہیں تیار کر کے خوش ہوتی، ویسے ہی وہ قبروں کو صاف ستھرا کر کے خوش ہوتی۔

سکینہ نے ہزار دفعہ اسے سمجھایا کہ یہ اس کے بچوں کی قبریں نہیں ہیں وہ تو اس دنیا میں ہی نہیں آئے مگر وہ کہاں کسی کی سنتی تھی، بس چپ چاپ اپنی سناتی اور قہقہوں میں اپنے آنسو چھپاتی۔ لوگ اب اسے دعا کے لیے کہتے اور اس کی دعا لوگوں کے حق میں اللہ نے قبول بھی کرنی شروع کر دی تھی۔

شاہ زین پتر نور الہی گاؤں میں گدی نشین پیر صاحب تشریف لائے ہیں اور لوگ بتا رہے تھے وہ جس کے حق میں دل سے دعا کریں اللہ اس کی دعا رد نہیں کرتا۔ جا پتر میرا دل کرتا اس کی دعا سے اللہ تجھے اولاد دے گا۔

ماں کوئی ایک پیر فقیر جو میں نے نہ چھوڑا ہو؟
میں اب تنگ آ گیا ہوں اس سب سے اور اب میں بے اولادی کو ہی اپنی قسمت مان چکا ہوں۔
میرا پتر بس آخری بار!
رب سوہنے نے چاہا تو ضرور تو اولاد کا سکھ پائے گا۔ اس مالک کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں ۔
بس اس دفعہ میری بات مان لے۔ پھر میں تجھے نہیں کہوں گی۔
اچھا ٹھیک ہے چلا جاؤں گا۔

بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، شاہ جی ابھی تو گاؤں بہت دور ہے کیوں نہ ہم کسی نزدیکی جگہ پر کچھ دیر رک جائیں ؟

جہاں بھی مناسب لگے فضلو روک دو گاڑی، ایک تو ماں نے بھی آج ہی کہنا تھا جانے کو، پتہ نہیں فیکٹری میں ملازمین کیا کر رہے ہوں گے 2 گھنٹے کا سفر تھا 6 گھنٹے برباد ہو گئے ہیں۔ شاہ جی فکر نہ کریں نزدیک ہی میرے چاچا کا بیٹا ہے اس کو بتا دیا ہے بس جب تک بارش نہیں رکتی ہم وہاں ہی رک جائیں گے۔
سلام شاہ جی! فضلو کا چاچا زاد بھائی کرم دین شاہ زین کو دیکھتے ہی بولا۔
والسلام کرم دین
شاہ جی آپ یہاں بیٹھیں میں کچھ کھانے کا انتظام کر کے آتا ہوں۔

کھانے سے فارغ ہوتے ہی فضلو نے شاہ زین کو بتایا کہ کرم دین بتا رہا تھا کہ یہاں ان کے گاؤں میں بھی ایک اللّٰہ والی ہے جو دنیا جہاں سے بے پرواہ ہے آپ ایک دفعہ اس کو بھی دعا کا کہہ دیں۔ ہو سکتا ہے اللّٰہ پاک اپنا کرم فرما دے فضلو نے ڈرتے ڈرتے کہاں
آگے ہی بہت دیر ہو گئی ہے پھر کبھی دیکھیں گے، بارش رک گئی ہے تم گاڑی نکالو بس۔

کرم دین کے گھر سے کچھ دور گاڑی کھڑی تھی کیونکہ چھوٹی گلیوں میں بڑی گاڑیاں کہاں آ سکتی ہیں۔ بڑی مشکل سے شاہ زین نے یہ رستہ طے کیا، یہ رستہ اسے جانا پہچانا کیوں لگ رہا تھا جیسے پہلے بھی اس کے قدم آشنا ہو مگر اسے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کے باوجود بھی کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔

وہ کون ہے؟ شاہ زین نے پوچھا
شاہ جی اسی کے بارے میں آپ کو بتا رہا تھا کرم دین نے کہا جو اسے گاڑی تک چھوڑنے آ رہا تھا۔
کیا کوئی پیرنی ہے یہ؟
کہاں کی پیرنی مالک، دکھوں کی ماری ہے، یوں سمجھ لیں کہ دنیا والوں کی نظر میں پاگل ہے۔ سب کچھ اجڑ گیا ہے اس لیے اس کی دعا میں اثر ہے۔
"یا خدا جو میں سوچ رہا ہوں ویسا نہ ہو۔۔۔”
"اگر ویسا ہوا تو؟”
سلام بی بی!

بختو کو دیکھ کر شاہ زین کا دل اتنی زور سے دھڑکا کہ اس کو لگا شاید بند ہو جائے گا۔
کیا ہوا شاہ جی آج یہاں کیسے؟
شاہ زین کے منھ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے لگ رہا تھا کہ اس کا گلا کوئی پکڑ کر دبا رہا ہے اور اس کا جسم کسی زہر کی زد میں نیلا پڑتا جا رہا تھا۔
کملی اے! شاہ جی واسطے دعا کر، اینا دیا چار بیویاں نے پر اولاد ایک وی نہیں۔ کرم دین نے کہا

بختو نے اونچی آواز میں قہقہے لگانے شروع کر دیے
چار بیویاں ہاہاہا
چار بیویاں نہیں اینا دیا پنج بیویاں نے۔
کرم دین نے آگے بڑھ کر خاموش کروانا چاہا تو شاہ زین نے روک دیا اور اسے جانے کا اشارہ کیا۔
اس کے جانے کے بعد وہ وہاں ہی بیٹھ گیا
بختو تو زندہ ہے؟
قہقہے لگاتی بختو کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے
"میں تو مر کر بھی زندہ ہوں شاہ زین، اور تم زندہ ہو کے بھی مردہ ہو۔”

میں تیرے پاس واپس آ رہا تھا تو میرے ساتھ حادثہ پیش آ گیا اور میں ایک سال قومے میں رہا۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ تیرے گھر آگ لگ گئی اور تو اس میں جل گئی تھی۔
مجھے معاف کر دے، تیرے آنسوؤں نے مجھے دنیا کی سب سے بڑی دولت سے محروم رکھا ہوا ہے۔
میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں!
اس نے صرف اتنا کہا،
"شاہ جی تیرے اولاد کیسے ہو گی؟ تیری اولاد تو یہاں دفن ہے۔”

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.