لینے کے دینے (ازقلم سیدہ فاطمہ، کراچی)
حادثہ ہونے کے بعد جلدی جلدی سے زخمیوں کو ہسپتال لے کر جا رہے تھے۔

پارک تو پہلے بہت جاتے تھے۔ ایک دن ہماری فیملی نے پروگرام بنایا نئے پارک گھومنے کا. ہم سب تیار ہو گئے۔ اور پھر گاڑی میں سوار ہوکر پارک پہنچ گئے۔
پارک اچھا خاصا لمبائی میں بنایا گیا تھا۔ ٹریفک اس قدر جام تھا ٫ لوگوں کے ہجوم بے پناہ تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پوری دنیا کے عوام ادھر ہی آ گئے۔ پارکنگ بھی کافی لمبی تھی۔
ہجوم کی وجہ یہ بھی تھی۔ نیا پارک بننے کی وجہ سے لوگوں کو گھومنے کا شوق لے آ یا۔ پارک کے اندر بھی گہما گہمی تھی۔ ہم سب پہلے ایک جگہ بیٹھ گئے۔ پھر سلائیڈ میں بیٹھے اور باری آ نے پر بچوں کو بٹھایا ہوا تھا۔ کچھ دیر انتظار کر کے سلائیڈ چل پڑی ۔ سلائیڈ
بہت تیزی سے چل رہی تھی۔ دیکھ کر تو چکر آ نے لگے.
جو لوگ اور بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ دوسری سلائیڈ کو دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے ریسٹورینٹ میں کچھ کھانا کھایا ۔ پہلے آ ئسکریم کھائی پارک میں بہت خوبصورت تالاب بھی تھا۔ وہاں مچھلیاں رنگ برنگی خوبصورت منظر پیش کر رہیں تھیں اور بطخیں بھی تھیں ۔ ہم لوگ پورک پورن کھلا رہے تھے۔ بچے بہت خوش ہوئے، اس کے علاوہ وہاں ہر طرح کے جھولے بھی تھے۔ ریس لگانے والی گاڑیوں میں جب ہم سوار ہو ئے تو بہت ہی مزا آ رہا تھاا
بڑے، بچے سب ریس لگا رہے تھے خوب مزے کر رہے تھے۔اس کے بعد ہم نے چڑیا گھر میں دیکھا ۔ شیر اور شیر کے بچے بھی بہت پیارے لگ رہے تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ شیر زور زور سے دھاڑ رہا تھا اور وہاں شیر کی نقل اتارتے ہوئے بہادری دکھانے میں مصروف تھے جو وہاں بچے پارک میں گھومنے پھرنے آ ئے ہوئے تھے .
وہ اس کے بچے بھی تھے جو کہ کھیل میں لگے پارک کے چوکیدار نے بچوں کو آ واز لگائی کہ شیر سے پنگے نا لو ۔۔۔۔۔۔۔شیر باہر نکلے گا تو پھر کیا ہو گا۔ ۔بچے تو بچے بڑوں کو بھی شرارت سوجھی ہوئی تھی تھی۔بس کیا کرنا تھا کہ شیر اپنی کوشش میں آ بھاگا اور کامیاب ہو گیا. پھر دروازے پر سےزور لگا کر باہر لوگوں کی دوڑیں لگوا دیں۔ بھگڈر مچ گئی تھی- اور اس کے مالک نے بڑی مشکل سے شیر کو قابو کرنے میں کامیاب ہوا۔۔۔۔۔سب نے سکھ کا سانس لیا ۔ اگر شیر کسی ایک پر بھی حملہ کرتا۔۔تو ایک انسان کیا.
کچھ عرصہ پہلے گارڈن میں شیر کھل گیا تھا۔ وہاں اعلان کر دیا گیا تھا کہ شیر کھل گیا اور لوگوں کی بھگدڑ مچ گئی تھی۔ جلدی جلدی لوگ گارڈن سے بھاگ رہے تھے۔ ہم بھی اپنی گاڑی میں سوار ہو ئے خوف وہراس پھیل گیا تھا۔ پہلے تو گارڈن میں خوب گھومے پانی کی بلیاں پالتو جانور اور پرندے سب دیکھے پھر جامن توڑے اور کھائے وہاں کوئی پابندی نہیں تھی۔
آ گے بڑھے تو وہاں دیکھا بہت زیادہ رش لگا ہوا تھا۔ بچے بہت زیادہ خوش ہو رہے تھے وہاں ہاتھی بھی تھا ۔ جس پر ہم سب بیٹھے اور گھومے ہاتھی کو کیلےاور سیب کھلائے اور پھر ہاتھی نے چھ کپ چائے پی لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھی نے چائے پی لی ٫ ہاتھی نے گلاس میں چائے پی تھی۔۔۔ہے نا دلچسپ بات اور ہاتھی کو پھل بھی کھلائے اس کے بعد کھانے سے فارغ ہو کر پھر دوسرے جھولے پر بیٹھی ۔کہ ایک سلائیڈ تو بہت ہی زیادہ خطرناک ترین تھی۔
کچھ دیر بعد ایک دھماکہ ہوا ۔۔ بھگڈر مچ گئی۔ اور رش اس قدر بڑھ گیا تھا کہ راستہ چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ سلائیڈ گر چکی تھی۔ جن لوگوں کے بچے اور فیملی بیٹھی ہوئی تھی۔ ان کے رشتے دار پہنچ گئے تھے۔ یہ حادثہ بہت افسوسناک تھا۔ ہم سب کو تو جیسے سکتہ طاری ہوگیا تھا۔ امی کو سمجھایا کہ بس کچھ دیر بعد حالات بہتر ہونے پر نکل چلتے ہیں۔ اتفاق سے ہمارے والد صاحب گھر پر موجود تھے۔ انہیں خبریں سن کر آ گہی ہو چکی تھی.
انہوں نےفون کیا کہ آ پ لوگ کہاں پر ہیں۔۔۔ فون ریسیو کرنے میں دشواری ہو رہی تھی ۔۔۔ شور بہت تھا۔ مختصر گفتگو کرتے ہوئے فون رکھ دیا اور واپس پلٹنے کا راستہ ہی مشکل ہو گیا تھا۔ ایمبولینس کی قطاریں لگ گئیں۔
حادثہ ہونے کے بعد جلدی جلدی سے زخمیوں کو ہسپتال لے کر جا رہے تھے۔ لوگ اپنی مدد آپ میں بھی لگے ہوئے تھے۔ جن کے لوگ حادثے میں شہید ہوئے وہ نڈھال ہو رہے تھے۔
یہ سارے منظر دیکھ کر ہمارے ہوش وحواس اڑتے جا رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ہم سب گاڑی میں سوار ہوکر گھر کی طرف چل پڑے۔۔۔
راستے میں بدترین ٹریفک جام ہوگیا تھا۔ گھر پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ راستے میں پھر والد صاحب کا فون آگیا۔ وہ پریشان ہو رہے تھے کہ حالات کی خبر سن چکے تھے۔ لیکن ان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ہم اسی پارک میں موجود تھے جہاں حادثہ ہوا تھا۔
گھر پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور آ ئندہ توبہ کی ۔گھر پہنچ کر ابو کو ماجرا بیان کیا ۔ابو کے لیے کھانا پارسل لیا تھا ۔ انہیں کھانا نکال کر دیا۔۔۔ اور پھر اپنی گفتگو جاری رکھی ۔۔۔واقعہ کی تفصیل بیان کی ویسے خبرنامہ سے ابو کو پتہ چل گیا تھا اور ہم تو صرف یہی سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے تھے کہ آ ج دن ہماری زندگی دل تو بہت خراب ہو گیا تھا٫ ہمیں تو لینے کے دینے پڑ گئے۔
اس سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ جب بڑے کسی کام کو کرنے سے منع کر دیں تو وہ کام نہیں کر نا چاہیے بلکہ اس کام سے رک جانا چاہیے وہ وقت بھول نہیں سکتے جب دھماکے جیسی آ واز گونج رہی تھی۔ دل دھڑکتا ہوا گھبرا ہٹ اور سکتہ طاری ہو جانا وہ منظر اب تک آ نکھوں میں گھومتا ہے۔
اس دن کے بعد ہم نے کسی پارک کا بھی رخ نہیں کیا ۔اس دن کے بعد کبھی بھی ہمارے گھر میں کسی نے بھی پارک جانے کا نام نہیں لیا۔۔۔۔۔۔۔ گھومنے پھرنے کے لیے بہت سی جگہیں ہیں۔ کولاچی، کلفٹن، منوڑا، ٹھٹہ، بوٹ بیسن ٫سمزو پارک، گڈانی ٫ پیرا ڈائیز پوائنٹ ٫ نیلم پوائنٹ.
فام ہاؤ س میں تو رہنے کا مزہ ہی الگ ہو تا ہے۔ ہماری فیملی جب فام ہاؤ س گئی تھی راستے میں سفر اچھا طے ہوا اور جب فام ہاؤ س پہنچے تو بہت سکون محسوس ہوا سناٹا چھا گیا کسی طرح کا بھی شور نہیں تھا۔
ناتو کسی بھی گاڑی کے گزرنے تک کا پتہ نہیں چلا ہم سب نے اپنے کمرے میں داخل ہو کر سامان رکھنا شروع کر دیا پھر گھومے اس کے بعد ہم لوگوں نے کھانا کھایا ۔ وہاں ہم لوگ بریانی کی دیگ لے گئے تھے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ریکٹ کھلنا شروع کی بہت مزہ آیا ہم نے سب ہرا دیا تھا۔ باری باری ہم سب کے ساتھ کھیلتے گئے اور ہراتے گئے ۔
کھیل کے بعد کچھ دیر آ رام کیا اور گپ شپ کرتے ہوئے رات گزر رہی تھی۔ چائے پینے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے تھے ۔ ڈھابے کی چائے پینے کی بات ہی الگ ہے۔ مزے کی چائے ہوتی ہے۔ کچھ دیر بعد ہم کمرے میں داخل ہو گئے۔ تھکن محسوس ہو رہی تھی ۔ میری کزن بھی آ گئی تھی- ہم دونوں کی آ نکھ لگی ہوئی تھی کہ اتنے میں زور سے بستر ہلتا ہو ا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی زور زور سے بستر ہلا رہا تھا۔ ہماری ہمت نہیں ہو پارہی تھی کہ ہم آ واز بھی نکالیں۔ اور آ واز نکالنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ باہر دور تک آ واز نہیں جاتی اب ہم کریں تو کیا کریں یاد آ یا کہ موبائل سے میسج کر دیتے ہیں۔ اب میسج تو کر دیا لیکن میسیج دیکھا نا گیا۔
فون کرنے کی تو نہیں ہو رہی تھی- ہم میں ہمت نا تھی- امی صبح کمرے میں داخل ہو ئی تو دیکھا کہ بستر کے نیچے سے بلی نکل کر جانے لگی تو امی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ دونوں نے امی سے رات کا قصہ بیان کیا وہاں برابر والے فام ہاؤ س میں جا کر معلومات کی تو پتہ چلا کہ وہاں آ سیب ہے۔
لوگ آ تے ہیں تو کوئی نہ کوئی مسلہ ہو جاتا ہے۔۔ ۔لیکن نقصانات جب ہوتےتھے٫ جب اس مخلوق کو کوئی نقصان پہنچا تا یہ بات سن کر امی نے بولا کہ جلد ہی واپسی کی تیاری شروع کر تے ہیں۔
پہلے ناشتہ تیار کیا گیا اور جب کچن میں چائے کے لیے چولہا جلانے کے لیے آ گے بڑھے تو وہاں سے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ چولہا بند ہو گیا تھا۔ امی کچن سے واپس پلٹنے لگی اور باہر نکل کر کہا کہ ڈھابے پر سے جا کر ناشتہ لےآ ؤ ۔ یا تو پھر ہم سب ڈھابے پر چل کر ناشتہ کر لیتے ہیں- سب تیار ہو گئے اور ڈھابے پر ناشتہ کیا اور رات کا قصہ بیان کیا تو پہلے سب ہنسنے لگے ۔ کسی کو یقین نہیں آ یا تھا۔ واقعہ پڑوسی سے سنا تو جلدی سے واپس چلنے کی تیاری شروع کر دی۔ اور سامان سفر تیار ہوا. کچھ چیزیں لا پتہ تھی- اب تو سب کی سیٹی گم تھی ۔ یہاں سے چلے جائیں۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے نکل پڑے اور گاڑی میں سوار ہو گئے۔ شکر ادا کیا۔ ایسے
لینے کے دینے پڑ گئے۔