جادہِ عشق (ازقلم: سجل راجہ )
اس کے بعد سارہ اور بلال لفظوں میں نہیں دیر تک آنسوؤں میں بات کرتے رہے.

جادہ عشق، از قلم: سجل راجہ
”سارہ منزل ایک عرصے سے ہمارے درمیاں ہے اور میں رہگزاروں میں بھٹک رہا ہوں اب میں منزل پانے کو نکل رہا ہوں، اپنا اور امی کا خیال رکھنا“
” بلال بھائی! نہیں ایسا نہ کریں میرا اور امی کا کیا بنے گا؟“
”سارہ بہادر بنو، تم ایک شہید یا غازی کی بہن کے طور پر جانی جاؤ گی، کشمیر کے زعفران زار ایک عرصے سے شعلوں اور شراروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں اس آگ کے دریا کو بجھانا چاہتا ہوں“
”بھائی! یہ راہِ ظفر تو لاشوں کے درمیان سے ہو کر جاتی ہے آپ تو بہت نزاکت پسند ہیں؟“
”چاہے مجھے لاشوں کے درمیاں سے گزرنا پڑے۔ تم اداس نہ ہو تم مجھے حنجروں کی قطاروں میں بھی محوِ رقص ہی پاؤ گی۔ مجھ میں جوئے خونِ شہادت جوش مار رہی ہے۔ عرصہ دارز سے جسے میں گنبد و محراب میں ڈھونڈ رہا ہوں وہ راہِ مسقیم تو بہتے خون میں نظر آ رہی ہے“
”بلال ایسے کہو گے تو میرے حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔ آپ غازی بن کر لوٹیں“
”جہاں دہشت گرد امن کے دعویدار ہوں، اپنے ہی اپنوں کے لیے اغیار ہو جائیں، جہاں جیسے جیسے بیٹی بڑی ہو اس کلی کی عزت کی حفاظت کے لیے مائیں روتی ہوں، ہر روز کوئی ماں اپنے جواں بیٹے کے لاشے پر روتی ہو، ایسی جگہوں سے زندہ لوٹنا کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے،“
” اللہ کرے یہ معجزہ آپ کے ساتھ ہو جائے“ سارہ کی سسکیاں نکل گئیں۔
”معجزے ہر روز تو نہیں ہوتے، پہلے کئی بار زندہ لوٹ کر آنے والا معجزہ رونما ہو چکا لیکن اب کی بار مشن بھی بڑا ہے اور دل بھی کچھ اور کہہ رہا ہے“.
اس کے بعد سارہ اور بلال لفظوں میں نہیں دیر تک آنسوؤں میں بات کرتے رہے، دل کے سارے جذبات جب دونوں طرف کی آنکھوں کے ریلوں میں بہہ گئے تو بلال نے سارہ کے کندھے پر بڑی ذمہ داری ڈال دی.
” سارہ یہ ہم دونوں کے درمیاں راز ہے کہ میں کسی بڑے مشن پر جا رہا ہوں امی کو بتایا تو وہ جینے کے سارے حوصلے کھو دیں گی. ابھی میرے دلہا بننے کی امید نے انہیں زندہ رکھا ہوا ہے. سارہ تم نے امی کا دونوں طرح کا خیال رکھنا ہے تمھیں امی کا بیٹا اور بیٹی دونوں بن کر دکھانا ہے۔“
"سارہ اللہ حافظ“ بلال نے سارہ کو دیکھے بغیر کہا۔
” تم لوٹو گے بھائی؟“ سارہ بلال کے گلے لگ گئی دھاڑیں مارتی ہوئی۔
” میں جبھی لوٹوں گا جب تمھاری جیسی کسی بہن کی آنکھوں میں دہشت کے ساۓ نہیں بلکہ خوابوں کی چمک ہو گی، جب بھائی فاٸرنگ کی آوازیں نہیں، امن کی بانسری سنیں گے۔“ بلال نے سارہ کو اچھے مستقبل ہونے کی یقین دلانے کی کوشش کی۔
”بھائی! میں تو کسی ٹیلے پر کسی جھیل کے کنارے کسی درخت کی اوٹ میں اپنا غم منا سکتی ہوں لیکن امی کا کیا ہو گا ؟۔ وہ یہ صدمہ کیسے سہہ پائیں گی انہیں میں کیسے حوصلہ دوں گی وہ تو خود سے اٹھ بیٹھ بھی نہیں سکتیں۔“ سارہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
”سارہ! ہمارے پاس اپنی تاریخ ہے جس مڑ مڑ کر دیکھنا چاہیے، کھول کھول کر پڑھنا چاہیے۔ ہمارے پاس امہات المومنین اور صحابیات کا طرزِ عمل ہے اپنے ہاتھوں سے مردوں کو میدان کار زار کے لیے تیار کرتی تھیں۔اپنے شوہر بھائی باپ یا بیٹے کا لاشہ بھی دیکھ کر کیسے صبر کا پہاڑ بن جاتی تھیں۔
"تم امی کو وہی قصے سنانا انہیں حوصلہ ہارنے مت دینا“۔ بلال نے آخری الفاظ بہت چبا کر کہے۔ وہ سارہ کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔ اصل حوصلہ تو امی کے سامنے پر دکھانا تھا۔ بلال امی سے مختصر ملاقات کر کے راہِ سرفروشی پر چل پڑا۔
آج سے پانچ سال پہلے وہ ایسی ہی ایک رات تھی جب سارہ امی ابو بلال اور ماریہ مل بیھٹے تھے کہ اچانک دروازہ ایسے بج اٹھا جیسے کوئی توڑ کر اندر آنے والا ہے۔ بابا نے دروازہ کھولا تو دو دشمن فوجی تیزی سے اندر داخل ہوئے. بابا نے روکنے کی کوشش کی تو ایک فوجی نے بابا کو دھکا دیا. بابا گرے بہت گہری چوٹ آئی خون کا فوارہ نکلا دیوار رنگین ہو گی لیکن دیوار کے سہارے کے ساتھ کھڑے ہوئے ایک نخیف سی آواز میں بولے.
”مجھے بھلے مار دو لیکن میری بیٹی کو غلط نظر سے بھی نہ دیکھنا“ بابا کی بات نے کافروں کو آگ لگا دی بڑھکے ہوئے شعلے کی طرح بابا کی جانب لپکے خنجر کا وار کیا اور بابا کو دوسرا سانس بھی نہیں آیا۔
بابا گئے لیکن میری عزت بچا گئے۔ بلال، ماریہ اور امی کے آگے ڈھال بن کر کھڑا تھا۔ ایک بزدل فوجی ماریہ پر جھپٹا. بابا کی اس بے رحمانہ شہادت نے بھائی میں کرنٹ بھر دیا لگتا تھا کوئی غیبی طاقت اندر آ گئی. زخمی شیر کی طرح دشمن پر جھپٹے، دونوں کو زخمی کیا لیکن وہ بزدل بھاگ گئے۔
بلال نے شکر ادا کیا کہ ماریہ کی عزت سلامت رہی ورنہ ماموں کو کیا جواب دیتا کہ وہ جوان ہو کر ان کی بیٹی کی حفاظت نہ کر سکا، اس رات سے آج کی رات تک بلال چین سے سویا نہیں بابا کا خون رائیگاں نہیں جانے دینا یہ عزم بلال کو جگائے رکھتا۔ اسی رات سے ماریہ کے دل میں بلال کے لیے الگ سے دریچہ کھل گیا جس سے مدھم سی روشنی اندر آتی لیکن مستقبل بہت روشن دکھاتی۔
ماریہ فورا اس کھڑکی کو بند کر دیتی کہ کوئی دیکھ نہ لے اس کے خوابوں کو۔ لیکن کھڑکی سے آنے والے تازہ ہوا کے جھونکے جہاں ماریہ کو معطر کرتے وہاں باقی سب کو بھی معلوم ہو گیا۔ بلال بھی مستقبل میں ماریہ کا ساتھ ہی چاہتا تھا لیکن کسی سے کہا نہیں تھا۔ ماریہ کا معلوم ہوا تو بلال نے بھی اپنا اظہار کر دیا۔ یوں دو محبت کرنے والے دل ایک نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔
”بلال تم کتنے عرصے کے لیے جا رہے ہو ؟ میں ماریہ کو گھر لانے کی فکر میں تھی تمھاری شادی کر دوں پھر بھلا سکون سے مر جاؤں“ بلال جانے کے لیے پلٹا تو ماں کی بات نے اٹھے ہوۓ قدم روک دیے۔ ”امی ! میں اب کی بار جب میں آؤں گا تو دلہا بن کر آؤں گا“ بلال نے شرارت سے کہا امی نے مسکرا کر ” ان شاء اللہ “ کہا۔
بلال کو گئے چھٹا مہینہ تھا لیکن کسی قسم کی خبر نہیں تھی۔ امی کی تسلی کے لیے سارہ کے پاس الفاظ ختم ہو رہے تھے۔ ماریہ کا صبر بھی جواب دے رہا تھا چاہے کچھ بھی کر رہی ہو اس کے لب بلال کی کامرانی کے لیے دعا گو رہتے تھے۔
آج سارہ بابا کی قبر پر دیر تک بیٹھی رہی اسے اپنے آنسو کے لیے کسی اپنے کا کندھا چاہیے تھے کسے بتاتی کہ بلال نہ آنے کے لیے گیا ہے۔ ماں کو بتاتی تو ایک اور سہارے سے محروم ہو جاتی۔ ماریہ کو بتاتی تو رخصتی سے پہلے بیوگی کا سوگ …. اس سے آگے سارہ کچھ نہ سوچ پائی۔ جب دل کے سارے زنگ آنسوؤں نے دھو ڈالے، سورج غروب ہوا تو ڈوبتا دل لیے وہ بھی باپ کی خاموش قبر سے گھر لوٹ آئی۔ دل کے کسی کونے سے عجیب درد کے ساتھ دعا نکلی ” مولا بلال کی طرف سے کوئی پیغام مل جاۓ“
رات کن اذیتوں میں کٹی سارہ کے بستر کی سلوٹوں سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ صبح صادق ہوئی، سارہ نے فون پر وقت دیکھنا چاہا ایک انجان نمبر سے پیغام آیا ہوا تھا
میں ذرا وہاں چلا ہوں کبھی یاد کرتے رہنا
میرے بعد نوجوانو ….. یہ جہاد کرتے رہنا
میرا شوق میرے جذبے کبھی یاد کرتے رہنا
با دعاۓ غائبانہ مجھے شاد کرتے رہنا
ہے جہاد صبر میں بھی یہ جہاد کرتے رہنا
میرے تن کا ذرہ ذرہ جہاں جا کے کام آۓ
میری خواہش شہادت کوئی معجزہ دکھاۓ
نہ بہانا اشک جب بھی میری لاش کوئی لاۓ
تمھارا بھائی بلال
سارہ کا خون منجمد ہو گیا دھڑکنیں ساکت ہو گئیں۔ اسے معلوم ہو گیا بلال اپنے مشن کی طرف بڑھ گیا ہے۔ دعاؤں میں مزید شدت آ گئی۔ ”یا اللہ خیر“ کا ورد تیز ہو گیا.
پیغام کو ملے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک روز دروازے کے باہر بہت سی آوازیں سرگوشی میں باتیں کرتی سنائی دیں۔ پھر دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی. سارا نے دروازہ کھولا، چند نوجوان ایک چارپائی لیے کھڑے تھے.
”بلال نے آخری ہدف کی طرف بڑھنے سے پہلے سب کو سلام کہا، آخری ہدف میں دشمن کے 5 ٹھکانے تباہ کیے، دشمن کو خبر ہو گئی کہ اب ان کے انتہائی اہم ٹھکانے کی طرف بلال پیش قدمی کر رہا ہے اس نے فورا خفیہ بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ بلال شہید تو ہو گیا لیکن حقیقت میں غازی ہے کہ دشمن کو اتنا بھاری نقصان پہنچایا کہ سات نسلیں یاد رکھیں گی“. بلال کے ساتھی نے یہ کہہ کر راہِ حق کے مسافر کو کندھوں سے اتار کر بیچ صحن کے رکھ دیا۔
”میرا بیٹا دلہا بننے کے لیے لوٹنے کا کہہ کر گیا تھا. وعدہ پورا کر گیا. اب جنت میں بابا اس کو سہرا پہنائیں گے“ صابر ماں کے اس جملے نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا۔