کچے رنگ (مصنفہ: نورین راؤ تلمبہ)

ہنستے مسکراتے نوک جھونک میں دن گزرتے اور وقت پر لگا کر اڑنے لگا ۔

کچے رنگ (مصنفہ: نورین راؤ تلمبہ)

صبح آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا ۔رومی کو سب کچھ بڑا دلفریب لگا۔ ایک حسین ہمسفر جو اس کو میسر تھا۔اس کی جانب دیکھا تو خود بخود مغرور سی ہوئی کہ قسمت کتنی مہربان ہے۔

ہنستے مسکراتے نوک جھونک میں دن گزرتے اور وقت پر لگا کر اڑنے لگا ۔ معاش رزق نے جب سراج تو کام کی تلاش میں محبت کے حصار میں رخصت ہوا تو عمیر رومی کو بے شمار یادیں اور باتیں دے گیا ۔

رومی بھی مسرور سی مگن رہتی اور پھر جب آہستہ آہستہ سسرالی رشتےداروں نے زندگی میں مداخلت شروع کی تو وہ جو نوک جھونک تھی وہ اب چھوٹی موٹی لڑائی اور شکایات میں ڈھلنے لگی ۔

رومی تو تب حیران ہوئی جب عمیر نے کال کرتے ہیں بے نقط سناڈالیں نہ حال نہ احوال بس الفاظ کے نشتر جو رومی نے سن کر آنسوؤں میں بہا دئیے۔ کہ یہ کیا ؟ایسا تو میں نے کچھ نہ کیا تھا .پھر میں کیوں اس کی حقدار ٹھہری ؟میرا کیا قصور تھا؟ وہ سوچتی اور الجھتی رہی .خود سوچ کے تانے بانے جوڑتی کہ شاید احساس ہو تو کوئی ایسا جمیلہ جو مرہم بنے اس کے کانوں کو سنائی دے مگر عمیر تو جیسے بھول ہی گیا تھا ۔

رومی کی کھنکتی ہنسی میں اب اداسی جھلکنے لگی ۔کیونکہ وقتاً فوقتاً اس کو ایسا ہی کچھ سننے کو ملتا جو اس کی روح کو گھائل کرتا اور وہ پھر سے خود کو سمیٹنے کی کوشش کرتی اور ہنستی مسکراتی مگر وہ جو اس کے اندر چل رہا تھا وہ جانتی تھی ایسے ہی دنوں میں عمیر گھر آیا تو خوشی سے نہال سب کچھ بھلائے شوہر کے لیے دل وجان سے حاضر تھی ۔

وہ گرم جوشی عمیر کے لہجے سے مفقود تھی ۔رومی نے کھوجنے کی کوشش کی ۔ مگر عمیر نے کچھ نہ کہا اور شکووں کی جگہ خاموشی کی دبیز تہہ جمتی گئی اور اس سب میں رومی کی ذات کہیں دور کھو سی گئی اس نے تو اپنی پہچان بھی کھو دی تھی اس رشتے سے جڑ کر مگر جس سے تختہ تھا وہ تو اس زعم میں تھا کہ اس نے کبھی ذیادتی نہیں کی ۔

وہ جو نہال و فرداں تھی کہ عمیر اس سے معافی نہیں تو کم از کم پیار کے دو بول ہی بولے گا۔ مگر وہ تو اپنی ہی دنیا میں مگن واپسی کے سفر کی تیاری پکڑے اپنی فیملی سے ملتے لمحے کسی کی اداس آنکھوں اداس چہرے اور اس کی آنکھوں میں پھیکے پڑتے رنگوں کو نظر بھر کر بھی نہ دیکھا۔ اور چل دیا ۔

وہ جو زندگی کو بھرپور خوشی سے جینے کی متمنی تھی اپنےآپ کو آئینے میں دیکھ کر پہچان نہ پائی کہ وہ جو رنگ تھے اس کے چہرے پر وہ تو چند دنوں میں ہی ماند پڑ گئے۔ اور ایک پھیکی ہنسی اس کے ہونٹوں پہ رقصاں تھی کہ یہی اب اس کا نصیب تھی ۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.