اسفند یار (ازقلم: گلزار دانش)
اسفند یار نہایت زہین انسان تھا اور اسکے تمام مشورے ہی مفید ثابت ہوتے تھے ۔

اسفند یار (ازقلم: گلزار دانش)
ان دنوں میں ابھی موبائل جیسی جدید ٹیکنالوجی کا بول بالا نہیں ہوا تھا ۔ ٹیلی فون بھی کسی اکا دکا گھر میں ہی پائے جاتے تھے ۔ اور پیغام رسانی کا زیادہ تر ذریعہ خط و کتابت کے زریعے ہوتا تھا ۔ جس وجہ سے مجھے خط لکھ کر اظہار کرنے کا مشورہ میرے سب سے قریبی دوست اسفند یار نے دیا تھا ۔
ویسے تو عموما اگر کسی سے محبت ہو جائے تو ایسے دوستوں کا ہونا کینسر کی بیماری جیسا ہوتا ہے ۔ پر اسکا ہونا میرے لیے کینسر کی بیماری سے کینسر کے علاج تک سب کا ہی کردار ادا کرتا رہا ہے ۔
اسفند یار نہایت زہین انسان تھا اور اسکے تمام مشورے ہی مفید ثابت ہوتے تھے ۔ اس لیے ہمیں خود پر نہیں بلکہ اس پر یقین تھا. یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے جب تانگے سے اترتا حسن نسواں آنکھوں سے ہوتا ہوا دل کے تاروں کے ساز بجا رہا تھا جس وجہ سے دماغ کسی شرابی طوائف کی طرح نشے میں رقص کرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔
اسکے چہرہ پر نقاب تھا مگر اسکی ظاہر ہوتی آنکھیں ہی دیوانا کرنے کو کافی تھی ۔ میں اسکے گزر جانے تک بنا کسی کی پرواہ کیے دیکھتا جا رہا تھا ۔ اسفند یار میرے ساتھ کھڑا بھانپ گیا تھا ۔ اور اس طرح کے کاموں کا ٹھرک اسے پہلے سے ہی تھا ۔ اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر اسکا پیچھا کرنے کو کہا اور ہم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اسکے پیچھے ہو لئیے ۔ اور اسے گھر داخل کرنے کے بعد ہی لوٹے ۔
اب جب تھوڑی فرصت ہوتی تو ہم اسکی گلی میں دل بہلانے چلے جاتے ایک مہینہ ہونے کو تھا مگر اس حسینہ نے ابھی تک کوئ بھاو نا دیا تھا ۔ اسفند یار تو بور ہونے لگا تھا ۔ کیونکہ اسے تو کہانی کی تلاش تھی اور یہاں اتنی دیر میں کتنی ہی کہانیاں وہ لکھ چکا ہوتا ۔ خیر اس نے جب میری ہمت کا خوب جائزہ لیا ۔ اور اسکے بعد خود ہی ایک تحریر نامہ میرے حوالے کر دیا ۔ جو مجھے اس حسینہ تک خود پہنچانا تھا ۔ اگر اس نے یہ کہ کر مجھے ڈرایا نا ہوتا کے اگر وہ پیغام خود نا دینے گیا تو وہ حسینہ پیغام دینے والے سے ہی محبت کر بیٹھے گی تو میں کسی صورت وہ خط اسے نا دیتا ۔
میں پہلی بار کسی کو خط دے رہا تھا ہمت کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا کر رہا تھا ۔ اللہ بچا لینا ۔ مگر اسفند یار دوستی کا پورا فرض نبھاتے ہوئے کہتا بڑا نیک کام کرنے جا رہا ہے ۔ دعا ہی مانگنی ہے تو یہ کہو مجھے اس کے ساتھ پھنسا دینا.
نا جانے کتنی ہی بار آیت الکرسی پڑھی جو جو قل آتے تھے سبھی کا ورد کرتے کرتے میں نے اسے یہ کہ کر مخاطب کیا کے یہ آپکے کچھ کاغذ تانگے میں رہ گئے تھے ۔
اس نے اپنی آنکھوں سے اس طرح گھورا کہ مجھے میرا نو مولود عشق بھول گیا اور بھاگنے کے لیے پاوں تیار کر لیے. مگر اس نے وہ کاغذ لے لیا اور مجھے بدتمیز کہ کر اپنے راہ ہو لی ۔
ابے مجنو کیا ہمت دکھائی تونے تو بس سمجھ اب تیرا کام ہو گیا ۔ میں بسورا سا منہ بنا کر اسے یہاں سے نکلنے کا کہا ۔ بتاو تو کیا ہوا ۔
ارے بد تمیز کہ کر گئی ہے مجھے اور یہ سب تیری وجہ سے ہوا ۔ وہ تو قسمت اچھی اس نے شور نہیں ڈالا ورنہ بڑی بڑی مونچھوں والے وہ تینوں آدمی میری طرف ہی دیکھ رہے تھے ۔
حد ہے میاں تم ڈرتے نا جانے کس بات سے ہو ۔ وہ تم سے جوان کو دیکھ کر دل ہاری بیٹھی ہے ۔ اسی لیے تو اس نے خط پکڑا اور مونچھوں والے بھائیوں سے بچا لیا ۔
اور بدتمیز کیوں کہا پھر ۔ ابے ایسے تمہارے انداز پر کہا ہوگا اگر اسکے دل میں کچھ نا ہوتا تو وہ خط لیتی ہی کیوں ۔ میں اسفند یار کی باتوں سے کافی مطمئن محسوس کر رہا تھا ۔ مجھے ننانوے فیصد یقین ہو گیا تھا کے وہ حسینہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے ۔ مگر یہ ننانوے فیصد یقین اسفند یار کی باتوں کی وجہ سے تھا ۔
تین سے چار دن گزر گئے تھے مگر خط کا کوئی جواب نہیں آیا. جواب تو دور وہ راستے میں کھڑا دیکھ کر گھور کر گزرتی تھی ۔ جہاں میں ذرا سا دل چھوڑتا وہیں پر اسفند یار تسلی دیتا اور یقین دلاتا کہ لڑکیوں کی محبت کا یہی انداز ہوتا ہے ۔ اگر میں انکار کرتا اور کہتا کے نہیں یار چھوڑو. تو اسفند یار کہتا ایسے کیسے چھوڑو میری یاری پر لعنت اگر میں تمہاری محبت کو انجام تک نا پہنچاوں ۔
بس اسکی یہی باتیں جو وہ پان چباتے ہوئے کرتا تھا ۔ میرے لیے امید کی کرن تھی ۔ دوسرا خط دینے اور اسکا لے لینے کے بعد ہماری ہمت بڑھ گئی تھی اور ہم ٹھنڈے بیغیرتوں کی طرح جواب نا ملنے پر بھی اسے خط دیتے رہتے تھے ۔
ہم اتنے میں ہی خوش تھے کے ہمارے خط وہ لے تو لیتی ہے ۔ اور اسفندیار کو اسی میں مزہ آتا تھا کیونکہ میرے سارے خط وہ لکھتا تھا ۔ جس میں وہ اسکی آنکھوں سے لیکر اسکے سفید ہاتھوں اور یہاں تک کے اسکے پہنے سینڈلوں کی بھی تعریفوں سے کاغذ بھر دیتا ۔
مگر اسکی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ۔ ہم اسکی گلی میں بیٹھے تھے اور میں نے ہار مان کر فیصلہ کر لیا تھا. قریب ہی تھا کہ اسفند یار میرے فیصلے کو مانتا کہ اسکی نظر اچانک سے سامنے گھر کی بالائی منزل پر پڑی اور اس قدر باریک نظر کی داد اسفند یار کو دینی بنتی ہے کہ جس نے کھڑکی کے اندر سے پردے پر لہراتا سایہ دیکھ لیا ۔ جس سے یہی اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ وہاں کوئی لڑکی کھڑی ہے اور وہ ہمیں ہی دیکھ رہی ہے ۔
اسفند یار پھر سے شروع ہو گیا ابے یار ابھی تو بات بننے لگی ہے اور تم ہو کہ تنگ آ گئے ہو ۔ خیر جب اس حسینہ نے ہاتھ کے اشارے سے کچھ سمجھانا چاہا تو مجھے بھی یقین ہو گیا اسفند یار ٹھیک ہی کہ رہا تھا ۔
اس نے اس دن پہلا خط لہرا کر زمین پر پھینکا تھا جسے ہم نے جلدی سے قابو کر لیا ۔ ہمیں خط کھولنے سے پہلے تک یہی یقین تھا کہ اس میں محبت کی قبولیت کا عتراف ہوگا ۔
"پچھلے تین ماہ سے تم لوگ یہاں زلیل ہو رہے ہو اور آپ لوگوں نے بالکل غیرت کا دامن چھوڑ دیا ہے ۔ زرا سی شرم ہوتی تو تم اتنی بے عزتی کروانے کے بعد دوبارہ آتے ہی نا. مگر تم لوگ تو نا جانے کس مٹی کے بنے ہو نا اپنی عزت کی پرواہ ہے نا ہی ہماری بے عزتی کا خوف ۔ خدا ہی جانے کس مٹی کے بنے ہو ۔ تمہارے سارے خط میں نے جلا کر کوڑے دان میں پھینک دئیے ہیں ۔ اتنی بڑی بڑی باتیں چاند توڑ کر لے آؤں گا ستاروں سے تمہارے دوپٹے سجاوں گا حد ہوتی ہے تم محبت کا اظہار کر رہے ہو یا جو تم کر سکتے ہو اسکی نمائش ۔ تمہاری وجہ سے نا جانے کس کس کو شک ہو گیا ہوگا کے تم یہاں نین لڑانے آتے ہو ۔ بندہ کچھ تو خیال کرتا ہے ۔ اور تم خود تو آتے ہو اور یہ ساتھ اپنے جو پان کھاؤ دوست لاتے ہو اسکا آنا ضروری ہوتا ہے کیا؟ اس نے ساری دیوار کا ستیاناس کر دیا ہے تھوک تھوک کر ۔ کسی کے امتحان کی بھی حد ہوتی ہے آئیندہ اس طرف آنے کی کوشش نا کرنا ۔ میں جانتی ہوں تم ڈھیٹ ہو باز تو آؤ گے نہیں ۔ اگر تم اب ہماری گلی میں آئے نا تو کم ازکم اپنے اس دوست کو ساتھ مت لانا ۔ تمہاری کرن”
میں اسفند یار کو بنا سوچے سمجھے جو جو گالیاں تھی سب نکال دی اور ہم نے واپسی کی راہ لی اور مجھے اپنے ریجیکٹ ہونے کا دکھ نہیں بلکہ اسفند یار کے نئے نام پان کھاو کی خوشی زیادہ تھی. میں اسے بار بار چڑانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ تھا ہی ڈھیٹ. اسے اپنی بے عزتی ذرا محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہ مجھے کہ رہا تھا اگلا خط دیکھنا تم میں کیسا لکھتا ۔ اور میں جب تم آو تو میں گلی کے نکڑ پر کھڑا ہوں گا اور تم انکے گھر کے سامنے والے تھڑے پر ۔
میں اسکی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا ۔ ابے اسفند تو پاگل ہے کیا تمہاری عقل کام نہیں کرتی ۔ میں تو ہرگز نہیں آنے والا ۔ یہ بے عزتی کم ہے کیا ۔ اب بیٹا مار ہی پڑنا باقی ہے ۔
میں اسی یقین کے ساتھ سائیکل کو چلا رہا تھا کے اب اسفند یار کے پاس کوئ دلیل نہیں ہوگی اب کچھ بھی بتا کر سمجھا کر یا دکھا کر مجھے یقین نہیں دلا سکے گا کہ وہ میری محبت میں گرفتار ہے ۔ مگر اسفند یار اگلے خط کے لیے مشورے لیے جا رہا تھا مجھے چڑ ہونے لگی تو میں نے سائیکل کو روک دیا ابے پان کھاو تیرا مسئلہ کیا ہے؟
اسنے پان تھوکتے ہوئے کہا، پاگل کے بچے میرے بنا تیرا کیا ہوگا ۔ یہ دیکھ اسنے تجھے اکیلے آنے کا کہا ہے اور ساتھ یہ بھی تو لکھا ہے تمہاری کرن.