وہ کہانیاں لکھتی ہے (ازقلم: فاطمہ طارق حسین)
وہ کسی غیر مرئی نکتے پر نظر جمائے کچھ سوچ رہی تھی

وہ آہستہ سے سٹڈی کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی، دبے قدموں سے اس ٹیبل کے بالکل عین سامنے آن کھڑی ہوئی جس کے سامنے رکھی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھاوہ کتاب پڑھنے میں مگن تھا۔
بھاپ اڑاتی کافی کے دو کپ اس کے سامنے میز پر رکھے اور ہاتھ باندھے کھڑی ہوئی۔ "ارے! میرا بچہ! کب آئی تم اندر؟” اس نے کتاب بند کرکے میز پر ایک جانب رکھتے ہوئےمسکرا کر کہا۔
"پیارے بابا جان! جب آپ اپنی پسندیدہ کتاب پڑھنے میں مگن تھے۔” اٹھارہ سالہ نتالیہ نے کتاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "چلیں اب مجھے بھی بتائیں کیا بنا اس کہانی میں؟” اس نے مزید ایک بھی لمحے کی تاخیر کیئے بنا سامنے والی کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
"مجھے بتائیں پھر کیسے پہنچے آپ اس کتاب تک؟” اس نے اپنے بڑے سے چشمے کو ناک پر ٹکاتے ہوئے بے صبری سے پوچھا۔ "صبر کرو لڑکی! ” اس نے کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے مسکرا کر اس کے جواب میں کہا۔
"میں جیسے ہی لائبریری میں داخل ہوا، میری نظر ایک ٹیبل پر بیٹھی لڑکی پر پڑی جواپنے سامنے کتابوں کے ڈھیر کی بجائے خالی اوراق رکھے بیٹھی تھی، وہ کسی غیر مرئی نکتے پر نظر جمائے کچھ سوچ رہی تھی، وہ سرتاپیر "گہرے نیلے رنگ” کے عبایا میں ملبوس تھی، سر پر عبایا کا ہم رنگ سکارف اوڑھے اور اپنا چہرہ نقاب میں ڈھانپے ہوئے تھی.
میں نے لائبریری میں موجود تمام طلبا پر ایک نظر ڈالی، سب گود میں کچھ کتابیں رکھے مطالعہ میں مگن تھے، کچھ نوٹس بنا رہے تھے اور کچھ ویسے ہی کتابوں کی ورق گردانی کررہے تھے.
لائبریری کتابوں سے کھچا کھچ بھری پڑی تھی، سائنس کی بھاری بھرکم کتابوں سے لے کر فلسفہ، دین، ادب نیز ہر طرح کی کتابیں موجود تھیں. کتابوں کو مختلف کتابی شیلفس میں بہترین انداز سے ترتیب دیا گیا تھا۔
درمیان میں ایک بڑا سا مستطیلی شکل کامیز جس کے سامنے نفاست سے کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ میز کے عین درمیان میں اوپر اندرونی چھت پر ایک خوبصورت فانوس نسب کیا گیا تھا۔ اس میز سےتھوڑی دوری پر چاروں جانب چھوٹے گول میزوں کے گرد گولائی میں کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ لائبریری کی ترتیب کو دیکھ کر اسے ترتیب دینے والے کے ذوق اور کتابوں سے محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
وہ لڑکی گول میزوں کے گرد گولائی میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر براجمان تھی۔ وہ بالکل الگ تھلگ بیٹھی تھی، سنہری کور والے خوبصورت چمکتے ہوئے قلم (پین) کو اپنے ہاتھ میں پکڑے بے چینی سے اپنی انگلیوں کے درمیان میں ڈال کر گھماتی مجھے وہ مضطرب سی محسوس ہوئی، جیسے کسی جستجو میں ہو۔
دروازے میں یوں کھڑے ہوکر کسی کو گھورنا چونکہ نہایت عجیب اور غیر اخلاقی حرکت تھی اس لیئے میں سر جھٹک کر وہاں سے کتابوں کے شیلفس کی جانب بڑھا۔ ریک میں سے ایک کتاب اٹھائےمیں اس لڑکی کے عین سامنے والے میز پر جا بیٹھا۔
غیر ارادی طور پر بار بارمیری نظر اس بے چین لڑکی کےقلم پر جا ٹھہرتی، میں بار بار سرجھٹکتا اور پھر مطالعے میں مگن ہوجاتا لیکن یہ تجسس کہ "وہ کیا سوچ رہی ہے؟” مجھے مطالعے پر توجہ مرکوز نہیں کرنے دے رہا تھا۔ میں مارے تجسس کے اس لڑکی کی جانب دیکھ رہا تھا اس کی نظر ایک ہی جگہ پر ٹکی ہوئی تھی، چہرہ چونکہ چھپا ہوا تھا اس لیئے میں اس کے چہرے کے تاثرات نہ دیکھ سکا. لیکن مجھے اس کے چہرے، یا چہرے کے تاثرات سے کوئی سروکار نہیں تھا، مجھے تو اس کے سوچنے کے بے چین سے انداز، اس کے خالی اوراق، اور قلم کے بارے تجسس تھا.
"یہ لائبریری میں کوئی کتاب پڑھنے کی بجائے خالی صفحے کیوں اپنے سامنے رکھ کر بیٹھی ہے؟ اور اس کے ہاتھ میں یہ قلم، کیا یہ اس سے کچھ لکھے گی بھی؟” میں یہ سب سوچ سوچ کر ہلکان ہورہا تھا۔
میں کتاب کے ورق پلٹتا جارہا تھا لیکن کچھ پڑھ یا سمجھ نہیں پارہا تھا۔ پھر اچانک میری نظر اس پر پڑی وہ اب قلم کا کیپ اتار رہی تھی. مجھے عجب سی خوشی ہوئی، "اب وہ کچھ لکھے گی۔” میں نے خود سے سر گوشی کی۔ اور میری بات سچ ثابت ہوئی، اس نے واقعی لکھنا شروع کردیا، وہ سوچ سوچ کر لکھ رہی تھی، وہ اب پہلے سے خاصی پرسکون لگ رہی تھی، میں نے بھی سکون کی سانس لی اور اطمینان سے کتاب پڑھنے لگا، اب وقتا فوقتاً میری جیسے ہی اس پر نظر پڑتی میں نے نوٹ کیا اس کا قلم پہلے سے زیادہ تیزی سے چل رہا تھا۔ اب مجھے اس تجسس نے آن گھیراکہ "یہ کیا لکھ رہی ہے؟”
"ہاہاہا، آپ کے ساتھ تو بہت برا ہوا بابا! تجسس پر تجسس” نتالیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ "جاؤ میں نہیں سنا رہا تمہیں کہانی، تم میرا مذاق اڑارہی ہو؟” اس نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اسے گھورا.
"اچھا اچھا،سوری اب نہیں ہنسوں گی، پکا وعدہ، آپ کہانی جاری رکھیں۔” نتالیہ نے کانوں کو ہاتھ لگا کر یقین دہانی کروائی۔ کچھ لمحے بعد اس نے اپنا قلم بند کیا ان اوراق کو سمیٹا جن پر وہ کچھ تحریر کررہی تھی، اور پھر وہ وہاں سے اٹھ کر کتابوں کی ایک شیلف کی جانب بڑھی، میری نظریں مسلسل اس کا تعاقب کررہی تھیں، تاکہ جائزہ لے سکوں وہ کیا کررہی ہے؟ مجھے معلوم ہے یہ اچھی حرکت نہیں ہے لیکن میں اس تجسس کے ہاتھوں مجبور تھا جو مجھے اس کی ذات کی بے چینی دیکھ کر ہوا تھا۔
ان سب اوراق کو سمیٹ کر ریک میں پڑی کتابوں کے درمیان رکھ کر وہ باہر کی جانب چل دی۔ میں تھوڑی دیر کے بعد اٹھا اور اسی شیلف کی جانب گیا جہاں اس نے وہ تمام اوراق رکھے تھے، میں نے ریک میں موجود کتابوں کو ادھر ادھر کرتے ایک گہری نگاہ سب طلبا پر ڈالی، اب وہاں چند ایک طلبا ہی موجود تھے، اور وہ بھی اپنے سامنے رکھی کتابوں میں مگن تھے۔ میں نے ان اوراق کی جانب ہاتھ بڑھائے، مجھے احساس ہوا یہ غیر اخلاقی حرکت ہے کسی کا لکھا یوں اس سے پوچھے بنا پڑھنا، لیکن پھر اگلے ہی لمحے یہ سوچتے ہوئے کہ "اس نے اپنی تحریر لائبریری میں کتابوں کے درمیان اسی لیئے رکھی ہے تاکہ لوگ اسے پڑھ سکیں۔ "میں نے اپنے پہلے والے خیال کو رد کیا اور وہیں کھڑا اس کی تحریر پڑھنے لگا۔
"سنو! محبت کی کیا تعریف ہے تمہاری نظر میں؟” میں ایک دم چونکا یہ کیسا سوال ہے؟ خیر میں نے مزید پڑھنا شروع کیا۔ "مجھے نہیں معلوم تم اور یہ زمانے والے محبت کو کیا سمجھتے ہو؟ نہیں معلوم کہ تمہارے نزدیک محبت کیا ہے؟ مگر میری نظر میں محبت ایک معتبر جذبہ ہے، ندیوں میں بہتے صاف شفاف پانی جیسا ٹھنڈا اور پرسکون، بارش کے بعد آسمان پر بننے والی دھنک کے سات رنگوں جیسا دلکش، بلندیوں میں قطار در قطار پرواز کرتے پنچھیوں کی سریلی بولی جیسا دل کو چھو لینے والا، ہوا میں جھولتی ڈالیوں کے جیسا بے فکر ، بلندو بانگ پہاڑوں جیسا باوقار، بارش کی بوندوں کے جیسا عاجز، اور شہد کے جیسا میٹھا، میں نے مزید ورق پلٹا لیکن وہ بالکل خالی تھا۔
"اوہ!”نتالیہ نے افسردگی سے کہا۔ "پھر؟” اس نے اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی بے صبری سے سوال کیا۔ "پھر میرا روز کا معمول بن گیا میں عین اسی وقت لائبریری میں جاتا جس وقت وہ پہلے دن مجھے وہاں دکھائی دی تھی، اب جب بھی میں جاتا وہ لکھنے میں مگن ہوتی پہلے دن والی بے چینی کہیں دور بھاگ گئی تھی شائد۔
میں روزانہ اس کے جانے کے بعد اس کی تحریر پڑھتا،اس کی تحریر محبت پر تھی، میں نے غور کیا اس نے اس تحریر کو کوئی عنوان نہیں دیا تھا، اس کا عنوان یقیناً ” محبت ” ہوگا۔ میں نے مسکراتے ہوئے سوچا، اور خود کو خود ہی داد دیتے ہوئے مزید پڑھنا شروع کیا۔
"میرے نزدیک محبت اتنی ہی پاکیزہ ہے جیسے کہ سیپ میں چھپا موتی، اور اس طرح بیش قیمت اور گراں قدر جیسے سمندر کی تہہ میں پڑا قیمتی ہیرا، جسے حاصل کرنے کےلیے بلندیوں میں پرواز کرتے پرندے کو بھی سمندر کی نچلی سطح تک پہنچ کر جھکنا پڑتا ہے، اس قدر خوبصورت جیسے چمکتا ہوا لال یاقوت جواس قدر نایاب ہے کہ ہر کسی کی دسترس میں نہیں آسکتا۔
یہ لفظ "محبت” اس قدر گہرا ہےجسے سمجھنے کےلیے اپنے ہی من میں ڈوب جانا پڑتا ہے۔ اس کی آج کی تحریر کا اختتام بھی مجھے بے چین کرگیا تھا، میں چاہتا تھا میں جلد یہ ساری تحریر مکمل پڑھ لوں مگر وہ اتنا چیدہ چیدہ لکھ کر مجھے مزید بے چینی میں مبتلا کررہی تھی۔
اس کی تحریر میں سب سے زیادہ متاثر کن مجھے اس کی تشبیہات لگی تھیں، کیا خوب انداز تھا اس کا” اس نے متاثر کن لہجے میں کہا۔
نتالیہ نے بھی اثبات میں سر ہلا کر اس کی بات کی تصدیق کی۔
"اگلے دن جب میں لائبریری میں داخل ہوا، وہ اپنے ہاتھ میں ایک دلکش کوور والی کتاب لیئے کھڑی تھی، کتاب کا سر ورق سفید تھا اور اس پر حجاب میں ملبوس ایک لڑکی ہاتھ میں قلم تھامے کچھ لکھنے میں مگن تھی۔ کتاب پر بڑے بڑے حروف میں لکھا گیا تھا "وہ کہانیاں لکھتی ہے” یہ غالباً کتاب کا عنوان تھا۔
میں نے اس کے برابر والے شیلف سے کتابیں کھنگالتے اس کے ہاتھ میں پکڑی کتاب کا جائزہ لیا۔ میں نے یہ کتاب یہاں پہلے نہیں دیکھی تھی، مگر میں نے کبھی کتابوں کو غور سے کب دیکھا تھا، میں تو روزانہ بس اس کی ہی تحریر پڑھتا تھا، میں نے سوچا اور پھر سے کتابیں چھانٹنے لگا۔
وہ اس کتاب کو ریک میں رکھ کر واپس دروازے کی جانب پلٹی اور لائبریری سے باہر چلی گئی، مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہواکہ آج اس نے لکھا کیوں نہیں ؟ وہ بالکل بھی اچھی مصنفہ نہیں ہے، میں نے غصے سے کہا۔اب میں کیا کروں مجھے آگے سے پڑھے بنا چین نہیں آئے گا، نہ جانے وہ کب آگے لکھے؟ میں نے سر کھجاتے ہوئے سوچا، پھر کچھ سوچ کر وہی کتاب اٹھا لی جو وہ رکھ کر گئی تھی۔
میں اس کتاب کی ورق گردانی کرتا گیا مجھے خوشی ہوئی کل تک جو تحریر میں اوراق پر پڑھ رہا تھا وہ آج کتاب کی شکل میں میرے ہاتھ میں تھی، میں نے مصنفہ کا نام دیکھا، "آروش حسین” میں نے زیر لب یہ نام ادا کیا۔
میں جہاں تک وہ تحریر پڑھ چکا تھا،اس سے آگے پڑھنے کی غرض سے میں تیزی سےکتاب کے ورق پلٹنے لگا، میں نے شیلف کے قریب رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کتاب کی ورق گردانی شروع کی۔
"محبت وہ نہیں ہے جسے عام لوگوں نے محبت کا نام دے دیا ہے، یہ تو خاص جذبہ ہے جو بالکل آئینے کی طرح شفاف ہے جس میں ہر کوئی اپنا عکس دیکھ سکتا ہے، محبت پاک اور پاکیزہ ہے، بالکل ایسے ہی جیسے رب العالمین کی اپنے بندوں سے محبت، بے شمار، جیسے ماں کی اپنی اولاد سے محبت، بے لوث، جیسے باپ کی محبت، کسی بھی طرح کی غرض سے پاک خالص. محبت بالکل ایسے ہے جیسے ہوا میں پرواز کرتا وہ سفید رنگ کا پرندہ جس کا رنگ بالکل بے داغ اور شفاف ہے۔
الغرض محبت کائنات کا حسن ہے، خدا کی رحمت ہے، جینے کی وجہ ہے، زندگی کی علامت ہے، لفظ محبت وہی ہے جسے خدا نے پسند کیا۔مجھے افسوس ہے ہم انسانوں نے اپنی کچھ خواہشات کو محبت کا نام دے کر اس لفظ کو محدود کردیا ہے، میں افسردہ ہوں کہ ہم نے اس لفظ کو بدنام کردیا ہے، اتنا بدنام کہ اس پاکیزہ لفظ کو ادا کرنے سے پہلے ایک ججھک سی محسوس ہوتی ہے۔
اس لفظ میں اس قدر وسعت ہے کہ کوئی چاہ کر بھی اس کی وضاحت بیان نہ کرپائے مگر ہم نے اس لفظ کو محدود کردیا ہے۔ "اس نے بات کے درمیان نتالیہ کی جانب دیکھا۔ نتالیہ بغور اسے سن رہی تھی۔اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
"اے محبت! ہم تم سے شرمندہ ہیں، ہم تمہیں سمجھ نہیں پائے، ہم تمہاری پاکیزگی پر دھبہ بنے، ہم نے تمہیں رسوا کردیا، ہم تمہیں پہچان نہیں پائے، ہم تمہیں درست بیان نہیں کر پائے۔
لیکن اب نہیں، میں اب دنیا کو بتا کر رہوں گی کہ محبت کوئی بدنام نہیں بلکہ یہ پاک لفظ ہے۔خدا نے اس کائنات کو محبت کے خمیر میں گوندھ کر بنایا ہے، کائنات محبت کے بنا ادھوری ہے، محبت کے دم سے ہی دنیا میں دلکشی اور اجالا ہے۔ المختصر محبت ہی کائنات ہے۔
اس نے اپنی کتاب کو اختتام پذیر کیا، میری آنکھیں ناجانے کیوں نم ہوگئی تھیں۔
اس دن کے بعد وہ مجھے کبھی نظر نہیں آئی ، نہ جانے وہ کہاں چلی گئی تھی؟ لیکن شائد وہ مجھے یہ قیمتی الفاظ تھمانے آئی تھی۔ ” اس نے نظر کا چشمہ اتار کر نم آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کتاب کی جانب اشارہ کیا۔ "امپریسوو!” نتالیہ بس یہی کہہ پائی تھی۔